جسٹس فائز عیسٰی کودھمکیاں ،ملزم کی معافی مسترد،فرد جرم عاید

296

اسلام آباد(آن لائن+اے پی پی)عدالت عظمیٰ نے ججز کی توہین اورجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دینے والے ملزم مرزا افتخار الدین آغا پر فرد جرم عاید کر دی۔اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی توہین اور جسٹس فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ملزم آغا افتخارالدین کو جیل حکام اپنی تحویل میں عدالت عظمیٰ لے کرآئے جب کہ ایف آئی اے کے متعلقہ افسران بھی عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔مرزا افتخار الدین آغا نے عدالت میں مو¿قف اپنایا کہ میں اپنے وڈیو بیان پر تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں،میں انتہائی شرمندہ ہوں،قانون کے علاوہ بطور مسلمان بھی معافی چاہتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے اللہ کی عدالت میں بھی جواب دینا ہے،مجھے وڈیو کی اپ لوڈنگ اور ایڈیٹنگ کا علم نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معافی والا کیس نہیں ہے،آپ عدالت سے مذاق نہیں کر سکتے، اس طرح تو پاکستان کا سارا نظام فیل ہو جائے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر وہ زبان استعمال کر رہے تھے جو کوئی جاہل آدمی بھی استعمال نہیں کر سکتا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا گیا ہے،کیا آپ نے بیان حلفی پڑھا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے بیان حلفی نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسے پڑھیں اور جواب دیں۔عدالت نے ایف آئی اے اور سی ٹی ڈی کی رپورٹس پر بھی اظہار عدم اطمینان کیا اور کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ محکمے کیاکر رہے ہیں؟ معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹس میں کوئی ٹھوس چیز موجود نہیں ہے،یہ ایک جج کا معاملہ نہیں بلکہ پوری عدلیہ کی کردار کشی کی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰنے مرزا افتخار الدین کی جانب سے داخل کرائے گئے گزشتہ تحریری جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عاید کر دی اور ملزم کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے مرزا افتخارالدین آغا کو فرد جرم کی کاپی بھی فراہم کر دی گئی۔خیال رہے کہ آغا افتخار الدین مرزا نے اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیز کلمات پرمشتمل وڈیو وائرل کی تھی،جس پر عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سماعت پر ملزم کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔