بحیرہ جنوبی چین پر واشنگٹن اور بیجنگ میں پھر گرما گرمی

504

واشنگٹن؍ بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی سرپرستی میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں اور امریکا کی جانب سے فوجی مشقوں کے تناظر میں دونوں ممالک میں گرما گرمی ہوگئی۔ خبررساں اداروں کے مطابق امریکا کہنا ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کے بیشتر حصوں میں آف شور وسائل پر ملکیت کا چینی دعویٰ غیر قانونی ہے اور یہ خطے پر مکمل قبضہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔اس سلسلے میں بیجنگ خطے کے دیگر ممالک کو طاقت کے زور پر ہراساں کررہا ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا بحیرۂ جنوبی چین کے علاقوں پر بیجنگ کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ دنیا چین کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ بحیرۂ جنوبی چین کو اپنی سلطنت سمجھے۔ ادھر چین نے مائیک پومپیو کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ امریکا میں قائم چینی سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ واشنگٹن علاقے میں جاری تنازع میں فریق نہیں اور اس کے باوجود وہ اس معاملے میں دخل اندازی کرتا رہتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا استحکام برقرار رکھنے کی آڑ میں خطے میں تناؤ کو ہوا دے رہا ہے اور تصادم کو بھڑکا رہا ہے۔ واضح رہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کا خطہ کئی ممالک کے مابین متنازع ہے۔ یہ سمندری علاقہ 35 لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے جو چین، ویتنام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی کے مابین کئی دہائیوں سے تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ تمام ملک اس کے مختلف حصوں پر ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین پر تنازع کی ایک بڑی وجہ وہاں جزائر کے 2بڑے سلسلے ہیں، جن کے نام پیراسیلز اور اسپریٹلیز ہیں۔ یہ جزائر قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ممکنہ طور پر وہاں تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بحیرۂ جنوبی چین تجارتی گزرگاہ اور فشنگ انڈسٹری کے لیے بھی اہم ہے۔ اس وقت چین خطے کے بڑے حصے پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے نائن ڈیش لائن کے نام سے اپنے علاقے کی حدود بھی متعین کی ہوئی ہیں، جسے کئی ممالک تسلیم نہیں کرتے۔