بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر تشدد اور زیرحراست قتل کی تحقیقات کرے‘ اقوام متحدہ

403

نیویارک ( مانیٹرنگ ڈیسک)اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں پر تشدد اور زیر حراست ہلاکتوں کے حوالے سے تحقیقات کرے۔ترک نیوز ایجنسی ‘انادولو’ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل ابتر ہوتی صورتحال سے متعلق 4 مئی کو بھیجی گئی رپورٹ میں من مانی نظربندیوں، تشدد اور ناروا سلوک اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق متعدد کیسز کے حوالے دیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (او سی ایچ سی آر) کے دفتر کی ویب سائٹ پر جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اب بھی گہری تشویش ہے۔انہوں نے نئی دہلی سے مطالبہ کیا کہ وہ ظالمانہ ہلاکتوں، تشدد اور بْرے سلوک کے الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے اور قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے کہا کہ ہمیں گرفتاری اور حراست کے دوران طاقت کے بے دریغ استعمال، تشدد اور ناروا سلوک کی دیگر طریقوں کے استعمال اور لوگوں کی حراست میں ہلاکت پر گہری تشویش ہے۔رپورٹ میں حراست کے دوران تشدد کے درجنوں کیسز کے حوالے دے کر کہا گیا ہے کہ یہ نسل اور مذہب کی بنیاد پر باقاعدہ ہدف بنانے کے واقعات لگتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ من مانی گرفتاریاں، تشدد اور ناروا سلوک کے باعث لوگ جاں بحق ہوئے۔ان واقعات میں 29 سالہ ٹیچر رضوان پنڈٹ کی ہلاکت بھی شامل ہے جو گزشتہ سال 19 مارچ کو پولیس کی حراست میں ہلاک ہوئے تھے۔رپورٹ میں رضوان پنڈٹ کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ ان کی موت زخموں سے زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئی، ان کی لاش پر مبینہ طور پر تشدد کے نشانات تھے لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ نئی دہلی نے 60 روز کے مقررہ مدت پر رپورٹ پر کوئی جواب نہیں دیا جو اس ماہ میں ختم ہورہی ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں بھارتی حکومت کو 16 اگست 2019ء اور رواں سال 27 فروری کو لکھے گئے خطوط کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔تشدد، ماورائے عدالت قتل، اقلیتوں کے مسائل اور مذہبی آزادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چاروں خصوصی نمائندوں نے بھارتی حکومت سے تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے ان کیسز کی مزید تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور تحقیقات کے نتائج سے متعلق بھی معلوم کیا ۔انہوں نے ان الزامات کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق قوانین کی معلومات بھی طلب کیںہیں۔