مودی، 16دسمبر 1971ء اور بھارتی عوام

650

16دسمبر 1971ء کی سیاہ رات پاکستانی عوام کبھی نہیں بھول سکتے۔ ساری رات مشرقی اور مغربی پاکستان سے محبت کرنے والے، پاکستان کا درد رکھنے والے اور پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنے والے پاکستانی سو نہیں سکے تھے۔ 16 دسمبر کی صبح کو ڈھاکا میں جنرل اے کے نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ہمارے حکمران بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ امریکا کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کرے گا، رات کے کسی پہر جب کسی سوئے ہوئے پاکستانی کی آنکھ کھلتی تو وہ فوراً ہی اُٹھ بیٹھتا اور پوچھتا کہ خلیج بنگال میں امریکا کا ساتواں بحری بیڑا پہنچ گیا ہے۔ تو جواب آتا کہ نہیں۔ پھر دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے گئے لیکن امریکی بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو نہیں آیا اور اب مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن چکا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور اب اس بات کو 49 سال گزر چکے ہیں۔ آج بھارتی عوام کو ان کا حکمران مودی بھی اسی طرح کا خواب دکھا رہا ہے کہ امریکا اوشین پیسیفک میں چین سے لداخ اور گلوان ویلی پر قبضے کا بدلہ لینے کے لیے ’’بحر الکاہل‘‘ میں اپنے بڑے جہاز بھیج رہا ہے۔ چند دن قبل ہم نے اپنے کالم لکھا تھا کہ امریکا اپنی فوج بھارت میں نہیں اُتارے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کی بری افواج کو خشکی پر لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
اب ایسا ہی نظر آرہا ہے بحرالکاہل میں سائوتھ چائنا سمندروں کے ساتھ امریکی بحری بیڑا بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ایک سروے منظر عام پر آچکا ہے جس کے مطابق امریکا میں 50 فی صد سے زائد امریکی ووٹرز ٹرمپ کے مد مقابل صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس 36 فی صد امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا فرق ہے اب انتخاب میں چار ماہ ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے امریکی صدر کو فوری طور پر دو کام کرنا ضروری ہیں۔ صدر کے خاص مشیروں نے انہیں بتایا ہے کہ ملک میں کوویڈ 19 کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا کو روکنے اور اس کے لیے فوری طور پر کوئی حتمی حل نکالنا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا ناممکن کام ہے جس کا فوری کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اُدھر دوسری جانب امریکی معیشت اس وقت تباہ کن صورت حال سے دوچار ہے۔ امریکا میں روزانہ ہزاروں لوگ زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ مزید جاری ہے ساری صورت حال کسی طور پر بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کنٹرول میں نہیں آ رہی۔ اس کا دوسرا حل یہ تھا کہ میدان جنگ میں کچھ کامیابیاں حاصل کرکے عوام کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کے لیے امریکی صدر نے فوری طور پر اوشین پیسیفک کا رُخ کیا۔ امریکی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل جارج نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ یو ایس ڈائیگون بمبار طیارے، آبدوزیں، چھوٹے بحری جہاز ہزاروں کی تعداد میں سپاہی اور بھاری اسلحہ موجود ہے، چین کی جانب بڑھ رہے ہیں اور نوکلیئر ہتھیار کے ہیڈ بار بھی موجود ہیں۔ امریکا سے نکل کر اوشین پیسیفک کی طرف روانہ ہوگئے ہیں جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ امریکا کے جنگ کے میدان میں تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرنے کے بعد صدر ٹرمپ اس کامیابی کو اپنی انتخابی مہم کے طور پر استعمال کریں گے۔ ہم نے 10مئی 2020ء کے جسارت میں چھپنے والے کا لم میں لکھا تھا کہ: ’’ا مریکا نے چین سے کشیدگی کے پیش نظر گوام میں اپنے فضائی اڈے اینڈرسن ائر فورس بیس پر بمبار طیارے اور سیکڑوں اہلکار دوبارہ تعینات کردیے ہیں۔ ایک ماہ قبل امریکا نے یہاں سے اپنے بی ون بمبار طیارے واپس بلالیے تھے۔ امریکا نے چینی بندہ گاہ سے 2ہزار 500کلو میٹر گہرے سمندر گوام میں B-1 بمبار طیارے تعینات کردیے غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق 4ون بی لانسرز طیارے اور نائنتھ بم اسکوارڈرن کے 200کے قریب ہوا بازوں کو دوبارہ گوام میں تعینات کردیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کو چین اور امریکا کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔اب صورتحال اور کشیدہ ہوتی جارہی ہے‘‘۔
اُدھر دوسری جانب چین نے کہا ہے کہ امریکا کے ’’پیپر ٹائیگر وہیکلز‘‘ ایشیا پیسیفک پر پہنچ رہے ہیں جن کی چین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق چین نے امریکی وہیکلز کے آنے سے قبل ہی نائن ڈیش لائن کے ساتھ ساتھ موجود جزائر پر اپنے میزائل نصب کردیے ہیں۔ یہ میزائل اتنے طاقتور ہیں کہ ان سے چند لمحوں میں امریکی وہیکلز کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پوری صورت حال کو مودی یہ کہہ کر کیش کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ امریکی بحری بیڑے ایشیا پیسیفک میں بھارت کی مدد کے لیے آرہے ہیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ چین نے جو صورت حال لداخ اور دیگر کشمیری علاقوں میں پیدا کر رکھی ہے کیا ان کاغذی وہیکلز سے اس صورت حال کو تبدیل کیا جاسکے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا واقعی بھارت کی مدد کرنے آرہا ہے یا اس کے کوئی اور مقاصد ہیں۔ چین نے اس طرح کی تسلیاں تائیوان، ویتنام، فلپائن اور سائوتھ چائنا اوشین کے ممالک کو بھی دے رکھی ہیں۔ لیکن آج یہ تمام ممالک انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب چین ازخود ایشیا پیسیفک کی نائن ڈیش لائن کے اندر بحری مشقیں کررہا ہے۔ پانچ جولائی سے اس نے نائن ڈیش لائن کے ارد گرد کے تمام علاقوں کو ہر طرح کے غیر ملکی جہازوں کے لیے سیل کر رکھا ہے۔ ایسے وقت میں امریکی وہیکلز کی آمد سے جنگ کا تو شاید ایسا کوئی خطرہ نہ ہو لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر وہیکلز کے درمیان کوئی حادثہ رونما ہوگیا تو اس سے بہت بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔
امریکا کا اصل پلان یہ تھا کہ وہ چین کی بندر گاہ سے 25سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایشیا پیسیفک کے گہرے سمندر میں اپنے جزیرے گودام پر اپنی پہلے سے موجود فوجی طاقت میں اضافہ کرے جس میں 3 ماہ قبل کورونا کی وجہ سے کمی کر دی گئی تھی۔ اس پوری صورتحال کے بعد مشرق وسطیٰ کے بیش تر ممالک ’’مکمل سی پیک پیکیج‘‘ میں شامل ہو چکے ہیں اور اب بھارت اور چین آمنے سامنے ہیں۔ امریکا کا ایک بہت بڑا بحری بیڑا یو ایس روز ویلٹ جسے کورونا پھیلنے کی وجہ سے واپس امریکا بلا لیا گیا تھا 8مئی کو دوبارہ ایشیا پیسیفک میں داخل ہو گیا۔ اس سلسلے میں امریکا کی وزارتِ داخلہ نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا اس جہاز کو واپس ایشیا پیسیفک میں اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے بھیج رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی آرمی نے اپنی حکومت سے 20.1ارب ڈالر کا مطالبہ کر دیا یہ رقم ایشیا پیسیفک میں امریکی مفادات اور اس کے اتحادیوں کے دفاع کے لیے طلب کی گئی ہے۔
چین نے مئی میں امریکا کو بتا دیا تھا کہ اگر ایشیا پیسیفک کے ممالک جن میں تائیوان، فلپائن، جاپان، ویتنام، جنوبی کوریا، سنگاپور اور انڈیا شامل ہیں کو امریکا نے F-35 بمبار طیارے دیے یا ان کی عسکری مدد کی تو چین آزاد ہوگا کہ وہ اپنے اتحادیوں کو XIANH-20 سپر سونک اور ایٹمی ہتھیار اور میزائل داغنے والے جہاز فوری طور پر فراہم کردے۔ اس سلسلے میں چین کے اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چین نے دسمبر کے آخر میں XIANH-20 ان جہازوں کو اپنے اتحادیوں کو دینے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اس لیے امریکا کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس علاقے میں اپنے اتحادیوں کو F-35 جہاز فراہم نہ کرے۔ یہ وہ ساری صورتحال ہے جس میں بھارت کو جنبش کی اجازت نہیں بھارت اپنے عوام کو درست صورتحال سے آگاہ کرے اسی میں اس کی بقا اور سلامتی ہے۔