شمالی کوریا، ایک پراسرار ملک کا مختصراً تاریخی جائزہ

1678

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کوریا یعنی شمالی کوریا کئی دہائیوں سے دنیا کے پراسرار ممالک  میں سے ایک رہا ہے. یہاں تک کہ اُس کی حکومت بیرونِ ممالک سے آئے لوگوں کو اور ملک میں اُن کے آزادانہ گھومنے تک کو ناپسند کرتی ہے۔

شمالی کوریا کی سرحد جنوبی کوریا سے ملتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کئی عرصے سے سرد مہری جاری ہے اور اس سرد مہری کی شدت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈروں نے 65 سال سے جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا لیکن یہ سرد مہری اُس وقت ختم ہوتے دکھائی دی جب 2018 میں شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان نے جنوبی کوریا کے صدر مون جو ان سے سرحد پر ملاقات کی جو کہ 21ویں صدی کا ایک تاریخی اور اہم موقع تھا لیکن چند ہی عرصے میں دونوں ممالک کے مابین دوبارہ سرد مہری آگئی اور حالیہ دنوں میں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کو علی الاعلان اپنا دشمن بھی قرار دے دیا ہے۔

ان دونوں ممالک کے آپسی تعلقات کو بہتر سمجھنے کیلئے ہمیں پچھلی چند دہائیوں میں جانا ہوگا جس سے اس پرآسرار ملک شمالی کوریا کے حالات و واقعات بھی بہتر طور پر سمجھ آسکیں گے۔

کوریا، شمالی و جنوبی حصوں میں منقسم کیوں؟

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کوریا دو حصوں میں بٹا ہوا نہیں تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ شمالی و جنوبی حصوں میں  منقسم ہوگیا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے اس پر جاپان کا قبضہ تھا لیکن جب جاپان کو جنگ میں شکست ہوئی اور اُس نے ہتھیار ڈال دئیے تو سوویت یونین نے کوریا کے شمالی حصے پر قبضہ کرلیا جبکہ جنوبی حصے پر امریکا نے۔

سوویت یونین شمالی کوریا میں اپنے ساتھ کمیونزم کا نظام لایا تھا جس کے اثرات سوییت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی شمالی کوریا میں  تاحال دکھائی دیتے ہیں جبکہ امریکا کمیونسٹ مخالف تھا اور یہی نظام جنوبی کوریا میں رائج ہوا۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک اب تک ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکے لہذا اس کو 9 ستمبر 1948 کو باضابطہ طور پر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں تقسیم کردیا گیا۔

دونوں حریف ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات وقت کے ساتھ شدت پکڑتے گئے جو کہ 1950 میں ہوئی جنگ پر منتج ہوئے جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کردیا۔

یہ جنگ تین سال جاری رہی لیکن شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے  کیونکہ امن معاہدے پر کسی بھی فریق نے دستخط نہیں کئیے۔

حاکم کون؟

1948 سے شمالی کوریا میں ایک ہی خاندان کے تین افراد کی حکومت ہے۔ کم ال-سنگ ملک کے پہلے سپریم لیڈر تھے جو 1994 میں اپنی وفات تک عہدے پر فائز رہے۔ کم ال-سنگ  کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ لیڈر بنے جنہوں نے 17 سال تک اقتدار سنبھالا۔

2011 میں کم جونگ ال نے اپنے بیٹے کم جونگ ان کو دارالحکومت پیانگ یانگ میں 10 لاکھ شہریوں کے سامنے شمالی کوریا کی لیڈر شپ سونپنے کا اعلان کیا۔

شمالی کوریا کی اندرونی حالات

شمالی کوریا کی آبادی تقریباً 25 ملین کے لگ بھگ ہے جو ایک طرح کی کمیونسٹ حکمومت کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ کمیونسٹ حکومت روزمرہ کی زندگی کے تمام شعبوں کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا کا سفر کرنے والوں نے بتایا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسکرا یا رو بھی نہیں سکتے، اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر لگتا ہے کہ اُن کی زبان پر کسی نے تالے لگائے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور جو کرنا چاہیں وہ کر نہیں سکتے۔

وہاں کے رہائشیوں کو گھومنے پھرنے کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے اور بیرونِ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی ملک میں داخل ہونا مشکل ہے۔

تمام ٹی وی اور ریڈیو چینلز ریاست کے قبضے میں ہیں۔ بالفاظ دیگر ان چینلز کو کنٹرول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شمالی کوریا کی آدھی سے زیادہ عوام کو بین الاقوامی حالات و واقعات کا کچھ پتہ نہیں ہے یا اگر ہے تو بہت کم۔ اگر کوئی شخص غیر ملکی نشریات کو سنتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اُسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 اکثر لوگ غربت کے باعث فریج، واشنگ مشینوں اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کیلئے امدادی فلاحی اداروں جیسے اقوام متحدہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ ملک میں غذائی قلت کا سامنا ہے۔

جو شخص حکومتی نظام پر تنقید کرتا ہے اور قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے یا جو ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، اُسے دردناک سزا یا سزائے موت دی جاتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں  تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ ہزاروں افراد کو حکومت سے اختلاف رائے رکھنے پر جیل اور مزدور کیمپوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

شمالی کوریا میں کبھی کبھی بڑے عوامی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے قائد کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن عام طور پر اس کے پیچھے چھپے محرکات جاننا مشکل ہیں کیونکہ شمالی کوریا کے معاشی و سیاسی حالات اور عوام کی خستہ حالی کے پیشِ نظر باشندوں کا اسطرح سے اپنے قائد کی تعریف کرنا سوالیہ نشان ہے اور اس طرح سے آزادانہ طور پر ایک جمع ہونا ناممکن ہے۔

ابتدائی عمر سے ہی شمالی کوریائی باشندوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ان کے قائدین طاقتور دیوتاؤں کی طرح ہیں۔ شمالی کوریا کی حکومت کا لوگوں کے اسطرح سے اپنے قائد کی تعریف کرنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم جونگ ان اپنے لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔ لیکن دوسرے غیر ملکی تجزیہ کاروں کا استدلال یہ ہے کہ لوگ کم جونگ کیلئے تعریفی کلمات اسلئیے کہتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انہیں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

مذکورہ بالا شمالی کوریا کی مختصراً تاریخی جائزے سے پتہ لگتا ہے کہ شمالی کوریا کی عوام و حکومت کے مابین ایک مخفی فاصلہ ہے جو مٹ نہیں سکا تاہم کئی شمالی کوریا کے باشندے ملک سے بھاگ کر جنوبی کوریا میں پناہ گزین ہوئے ہیں اور اپنے انٹرویوز میں وہاں کے روز مرہ کے معمولات میں حکومت کی جابرانہ مداخلت کا راز دنیا کے سامنے فاش کیا ہے۔