سندھی سیاست دانوں کی نفسیات

582

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے سندھی سیاست دان برصغیر کی تقسیم کی عملی جدوجہد کے باوجود سندھی قومیت کا حصار نہ توڑ سکے۔ یا پھر وہ کچھوے کی طرح اس خول کو اپنی پناہ گاہ سمجھنے لگے ہیں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سندھی سیاست دان قدوقامت رنگ ونسل اور جنس کے اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود سوچ کے اعتبار سے ایک دوسرے کی کلوننگ ہیں۔ جب بھی ان پر سیاسی زوال آتا ہے خود کو سندھی کہ کر مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بھی عدلیہ نے بے نظیر بھٹو مرحوم کے خلاف فیصلہ سنایا تو کنگرو کورٹس کنگرو کورٹس کی دہائی دینے لگتی تھیں۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوجائے تو حق و انصاف کی فتح قرار دے کر عدلیہ کے کردار پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں اور اگر میاں نواز شریف کے حق میں فیصلہ ہوتا تو اسے چمک کا کرشمہ قرار دے کر عدلتوں فیصلوں کو بکائو مال کہا کرتی تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ محترمہ کے حق میں دیا تھا تو کہا گیا تھا فوجی حکومت کے دبائو کے باوجود عدلیہ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ جج باضمیر ہوں تو قومی اور ملکی وقار میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ جیالے بہت خوش تھے مٹھائیاں بانٹی گئیں گلی کوچوں میں بھنگڑے ڈالے گے اور بغلیں جھانکنے والے بغلیں بجانے لگے۔ اپنی وفات سے قبل بے نظیر بھٹو نے بھارت کے ایک روز نامے ہندوستان ٹائمز میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں محترمہ نے پاکستان کی عدلیہ کی کارگردی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے مجرمانہ ذہنیت قرار دیا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سارے رہنما ہی باون گزے ہوتے ہیں۔ ایک بار پی پی کی معروف رہنما الٰہی بخش سومرو نے اپنی پارٹی کی کرپشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرپشن دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے مگر کسی ملک میں فوج حکمرانی نہیں کرتی، شاید وہ یہ بھول گئے کہ دنیا کے کسی ملک کے سیاست دان فوجی افسروں کے بوٹ پالش نہیں کرتے۔ بھری محفل میں وزیر اعظم کے سر کی مالش نہیں کرتے ان کے جوتوں پر پڑی گرد کو اپنے رومال سے نہیں جھاڑتے۔ مکتبہ بے نظر بھٹو کے لوگ گوئبل کے پروکار ہیں وہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ یاد آیا الٰہی بخش سومرو نے فوج کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ محمد خان جونیجو والی غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ پیپلز پارٹی دنیا کو یہ باور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ پاکستانی فوج دراصل پنجابی فوج ہے وہ سرحدوں کی حفاظت کے بجائے پنجابیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ جہاں تک فوج کی برتری کا تعلق ہے تو یہ سارا کیا دھرا سیاست دانوں کا ہے جہاں حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگے وہاں ہر طاقت ور شخص عدلیہ کو خانہ زاد سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے اور انصاف کی مسند پر براجمان ہر شخص عدل کے تقاضوں کے بجائے حالات کے تقاضوں اور نظریہ ضرورت پر عمل کرنے لگتا ہے۔
صوبہ بہاولپور اور کورونا وائرس
جب سے کورونا وائرس موضوع سخن بنا ہے ہم یہ سوچ سوچ کر حیران ہورہے ہیں کہ کورونا وائرس اور صوبہ بہاولپور میں کہیں نہ کہیں کوئی مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صوبہ بہاولپور کا تعلق سیاسی مافیا سے ہے اور کورونا وائرس کا تعلق ادویہ ساز مافیا سے ہے۔ گویا دونوں نے مافیا کی کوکھ سے جنم لیا ہے صوبہ بہاولپور کا شوشا چھوڑ کر سیاسی اہداف حاصل کرلیے ہیں اور کورونا مافیا نے بھی اپنے مفادات کے حصول کی طرح ڈال دیے ہیں۔ ممکن ہے آگے چل کر کوئی اور مافیا اس طرح پر مصرع طرح کی طرح گرہ لگا کر دلوں میں گراہ ڈال دیں۔ صوبہ بہاولپور کی طرح پڑی تو لوگوں کے احساسات اور جذبات کا یہ عالم تھا جس سے یقین ہوگیا تھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت صوبہ بہاولپور کے قیام کو نہیں روک سکتی مگر سیاسی مافیا نے کسی جہاں دیدہ تھانے دار کی طرح مقدمے کی اتنا کمزور کردیا کہ موجودہ بیانیے کی بنیاد پر قیامت تک صوبہ بہاولپور نہیں بن سکتا۔ تحریک انصاف نے صوبہ بہاولپور کی مافیا کے بیان سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو صوبے کا خواب دکھایا۔ مگر اس نے ظلم یہ کیا کہ خواب دیکھنے والی آنکھوں پلکوں ہی سے محروم کر دیا۔ اور اب عوام کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہے ہیں ہم سوچتے تھے کہ لاہور ہی میں لاہوری بادشاہ پائے جاتے ہیں مگر اب احساس ہورہا ہے کہ بادشاہ تو ہر شہر، ہر گائوں، ہر محلے اور ہر قریہ میں پائے جاتے ہیں بہاولپور کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بہاولپور کی سینٹرل لائبریری میں یہ سارا رکارڈ موجود ہے وہاں سے نوٹیفکیشن جلد 88رجسٹرد نمبر 136 دیکھ لیں۔ نوٹیفکیشن نمبر 133جو 29ربیع الاول 1372 بمطابق 18دسمبر 1952کو جاری کیا گیا تھا اس کی سرخی ہے کہ وزیر اعلیٰ ریاست بہاولپور نے 128 بستروں والے امراض سینہ کے اسپتال کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ بہت سے دوست کہتے ہیں کہ اگر بہاولپور صوبہ نہ تھا تو مخدوم زادہ سید حسن محمود وزیر اعلیٰ کیسے بنے ان عقل کے دشمنوں کو کون سمجھائے کہ سید حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بہاولپور کی سیاسی مافیا نے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بہاولپور کو صوبہ بننے ہی نہ دیا ورنہ حقیقت یہی ہے کہ بھٹو مرحوم بیرسٹر سردار اسلم افغان کی رہائش گاہ میں ہونے والی ایک ملاقات میں صوبہ بہاولپور بنانے کا وعدہ کرچکے تھے مگر بہاولپور کے سیاسی مافیا نے ایسا چکر چلایا کہ صوبہ بہاولپور کی تحریک پیش ہی نہ ہوسکی ہم صوبہ بہاولپور کے حامی دوستوں سے گزارش کریں گے کہ اخباری تراشوں اور سیاسی مافیا کے اخباری بیانات پر توجہ نہ دیں۔ بلکہ ریاست بہاولپور کے 1950 تا 1955 کے نوٹیفکیشن پڑھ لیں کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کا فائدہ کیا ہے اور فائدہ حاصل کرنے والوں اور فائدہ دینے والوں کا اصل مقصد کیا ہے۔ تہذیب آڑے آہ رہی ہے مگر سیاسی مافیا نے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ اب کچھ بھی آڑے نہیں آتا دارصل لاہور کے سیاست دانوں کے دماغ میں دولہا بھائی بننے کا جو خناس بھرا ہوا ہے جب تک اسے نہیں روکا جاتا صوبہ بہاولپور نہیں بن سکتا۔