ماہ صیام اور تجارت‬

404

شہلا خضر
رمضان المبارک کی آمدآمدہے۔تمام عالم اسلام بے انتہاء عقیدت اور احترام کے ساتھ اس مبارک مہینے کے منتظر ہیں ، اور کیوں نہ ہوں ،اس مبارک مہینے کا ایک ایک لمحہ ہماری مغفرت اور جہنم سے نجات کا زریعہ ہے –
اس خاص الخاص محترم مہینے میں جہاں عبادات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف صحراور افطار کی تیاریوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ٫ ہر گھر میں خواتین اپنے اہل خانہ کے لیے غذایت سے بھرپورمزیدار پکوان پکاتی ہیں ۔
تاکہ پندرہ سولہ گھنٹے کے طویل روزے کے دوران توانائی بحال رہ پائے اور تراویح جیسی منفرد اور بابرکت عبادت کے لئے طبیعت ترو تازہ رہے ،۔
عام دنوں میں ہم پھل، دودھ، مشروبات ، کھجلہ پھینی اور اسی نوعیت کے دوسرے لوازمات کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر نہی کرتے ، مگر رمضان المبارک میں ہر کس و ناکس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو ہر طرح کی بہترین اشیاء خوردونوش مہیا کرے ۔
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی سے اشیاء خوردونوش کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کی دسترس سے دور چلے جاتے ہیں ،جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارا سال منافع کمانے والے تاجر اور دکاندار بھائ اس مبارک مہینے کے احترام میں اپنی اشیاء کے دام نیچے لے آتے تاکہ اس ایثار وقربانی کے باعث وہ استطاعت نہ رکھنے والے روزے داروں کے لیے راحت کا سبب بن سکیں ،اور اپنے لیے اجر عظیم حاصل کر یں ۔
تجارت اگر دیانت داری سے کی جائے تو وہ عبادت بن جاتی ہے ۔
رسول اکرم ٘ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا تاجر قیامت کے روزنبیوں ،صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا ،”
رب کائنات وہ عظیم الشان ہستی ہیں جو تمام کائنات کی مخلوق جس میں جن وانس ,چرند پرند ،حتی کے حشرات الارض بھی شامل ہیں ان سب کے رزق کا زمہّ لیتے ہیں،۔
کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود رزق کے حصول کے لیے مکر وفریب ،دھوکا دہی ،مکاری بے ایمانی اور ملاوٹ جیسی گھٹیا اور گھنائونی شیطانی عوامل کا سہارا لیں ؟؟؟
حلال مال کمانے والے کو اللہ پاک نے اپنا دوست کہا ہے ،”الکاسب حبیب اللّٰہ”
اشیاء خوردونوش کے علاوہ عید الفطر کے موقع پر امیر ہو یا غریب سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو کم ازکم ایک عدد نیالباس اور پیروں کے لیے نئی چپل دلوائیں ،اس سلسلے میں دکاندار بھائی ماہ رمضان المبارک میں ہرہفتہ صرف ایک دن اپنی دکان پر “خصوصی عید سیل” کا اہتمام کریں تو اس طرح وہ دوسرے دکانداروں کے لیے مثال قائم کریں گے ،اور ہو سکتا ہے کہ ان کے اس عمل کو دیکھ کر دوسرے دکاندار بھی اس کار خیر کا حصہ بن جائیں ۔اس سیل کو خوبصورت نام دیا جا سکتے ہیں مثلا” ” اخوت مسلمہ سیل ”
۔”رضا الٰہی سیل ” ۔ “۔حصول تقویٰ سیل ” …
وغیرہ ،یہ سیل عام طور سے لگائ جانے والی دھوکہ اور بے ایمانی پر مبنی سیل نہ ہو گی بلکہ اپنے دلوں میں غریب اور نادار مسلم بہن بھائیوں کے لیےمحبت اور ایثار کے جزبے سے سرشاد ہو کر اپنے رب کی رضاو خوشنودی کے حصول کی خاطر لگائی جائےگی۔
یہی عمل ہمیں سچی خوشیوں کی راہگزر تک لے جانے کا زریعہ بنے گا ۔
عزیز ساتھیوں ” تجارت اور کاروبار میں جائز اور حلال منافع کمانا غلط نہی ہے پر ناقص مال کی فروخت ، حد سے زیادہ منافع کا تقاضا ،اور زخیرہ اندوزی ہمارے تمام جائز منافع کو بھی حرام اور نا پاک کر دیتا ہے ، اور آخرت میں کڑی سزا کے بھی حقدار بن جاتے ہیں ، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کون سی روش اپناتے ہیں ۔
آئیے اس رمضان ہم نئ روایات قائم کریں ، اور انسانیت کے لیے وہ اعلی مثال چھوڑ جائیں جو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بن جائے ۔
OOOO