پاکستانی معیشت کورونا کی زد میں

847

کورونا وائرس کا زور ٹوٹنے میں نہیں آرہا، وبا کے متاثرین اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق 22 لاکھ افراد اس وبا سے متاثر ہیں جب کہ ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ وینٹی لیٹر کم پڑ چکے ہیں مزید کی تیاری کا کام جاری ہے۔ مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف خود اس وبا کی لپیٹ میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار، صنعت، تجارت، زراعت، تعمیرات لاک ڈائون کی وجہ سے بند ہیں۔ بین الاقوامی معاشی مالیاتی ادارے آئندہ کے لیے معاشی نمو، تجارت اور بیروزگاری کے خوفناک تخمینے اور اندازے پیش کررہے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر طرف ارباب اقتدار و اختیار اس مشکل میں ہیں کہ اس وبا کا مقابلہ کریں یا معیشت کو سنبھالیں۔ اس لیے اربوں کھربوں ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان ہو رہا ہے۔ خوراک و علاج کی فراہمی اور نقد امداد کے پروگرام بھی بن رہے ہیں۔ لیکن گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں احمقانہ اعلانات بھی ہورہے ہیں۔ مثلاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت (WHO) کی امداد بند کردینے کا اعلان کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ اس ادارے نے چین میں جاکر اس وبا کی مکمل معلومات و تفصیلات حاصل نہیں کیں۔
جہاں تک پاکستان کی معیشت کا معاملہ ہے یوں تو یہ گزشتہ دو سال سے شدید مسائل کا شکار ہے، آئی ایم ایف کی طرف جانے کے بعد بھی صورتحال بہتر نہیں ہوئی لیکن کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لاک ڈائون نے معیشت کی گاڑی جو کسی نہ کسی طرح ڈگماتی ہوئی چل رہی تھی۔ تقریباً رک گئی ہے کاروباری، معاشی، تجارتی، تعمیراتی اور مالیاتی سرگرمیاں بیٹھ جانے سے سب کچھ ٹھپ ہو چکا ہے۔ برآمدات میں کمی اور بیرون ملک سے ترسیلات زر گر جانے کی وجہ سے ڈالر بڑھا ہے اور 7 فی صد قیمت بڑھ کر 168 روپے کا ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق ملکی معیشت کی نمو منفی ہو گئی ہے جو 72 سال میں پہلا موقع ہے۔ اس سے مزید لاکھوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٹیکس ریونیو میں شدید کمی کی وجہ سے ملکی خسارہ جی ڈی پی کا 9 فی صد ہو سکتا ہے، روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے کاریگر، مزدوروں کا کام بند ہو جانے سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تیسری طرف معیشت کو سنبھالا دینے کے اقدامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کی تنظیم G-20 نے غریب ممالک پر قرضوں کی ادائیگی ایک سال کے لیے موخر کر دی ہے، اس سے پاکستان کو 8 ارب ڈالر کا سہارا ملے گا۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے مختلف امداد کا اعلان کیا ہے جس سے زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی آئے گی۔ آئل کی عالمی قیمتیں کم ہونے سے درآمدی بل کم ہوگا جس سے پاکستان کو 4 سے 5 ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ اندرونی طور پر حکومت نے کنسٹرکشن سیکٹر کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں تعمیراتی کاموں کے لیے رقم لگانے والے افراد سے ذرائع آمدنی نہیں پوچھے جائیں گے۔ فکسڈ ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔ اس کا زیادہ فائدہ تو بلڈرز اور بڑے رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون کو ہوگا مگر اس سے غیر ہنر مند اور کم ہر مند افراد کو روزگار ملے گا۔ اس طرح چھوٹے کاروباری لوگوں کے لیے، جن کا تعلق سرجیکل، اسپورٹس، گڈز، قالین سازی، گارمنٹس، ریسٹورنٹس، آٹو پارٹس بنانے والے، آئرن اور اسٹیل کے پرزے بنانے والوں سے ہے، پانچ سے چھ فی صد شرح سود سے قرضوں کی سہولت کا انتظام کیا ہے۔ مگر اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے کمرشل بینک چھوٹے کاروباری لوگوں کو قرضے فراہم کریں اور اسٹیٹ بینک اس کی نگرانی کرے، ورنہ پاکستان میں کمرشل بینکوں کو سرکاری اسکیموں میں سرمایہ کاری کرکے منافع کمانے کی عادت ہے، مزید یہ کہ ملک میں بنیادی شرح سود 9 فی صد کر دی گئی ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں اور سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات ہیں۔
اس کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو غریب، بے روزگار اور بے سہارا لوگوں تک امداد پہنچانے کے کام میں تیزی دکھانی چاہیے، سندھ حکومت کی راشن تقسیم کے معاملے کو سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیا اور شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی حکومت کے احساس پروگرام میں کہیں کہیں امداد پہنچی ہے ورنہ وہاں پر زیادہ تر لوگوں کا ابھی تک ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے۔ میدان عمل میں غریب لوگوں کی امداد کی فراہمی کے معاملے میں الخدمت، جے ڈی سی، اخوت اور سیلانی کے خدمت کے جذبے سے سرشار افراد ہی نظر آرہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاک ڈائون اور دوسرے اقدمات کے معاملے میں ایک پیج پر نظر نہیں آئے اور ان کے ابہام، الزام تراشیوں اور لاپروائیوں کی سزا عام لوگوں کو مل رہی ہے۔ وفاقی حکومت پلمبر، ہیئر ڈریسر، ٹیلر، مکینک اور سینٹری کی دکانوں کے کھولنے کا اعلان کرتی ہے صوبائی حکومتیں بند کرنے کا اعلان کر دیتی ہیں۔ وفاقی حکومت لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان کرتی ہے، صوبائی حکومتیں لاک ڈائون مزید سخت کر دیتی ہیں۔
اس مشکل کی گھڑی میں سب سے اہم کام غریب اور بے روزگار اور سفید پوش لوگوں تک امداد اور راشن پہنچانا ہے اور حالات کی بہتری کے لیے سوچ سمجھ کر واضح، غیر مبہم اور متفقہ اعلانات و اقدمات کرتے ہیں۔