انجام سوچ لو

1337

ہم مغرب کی مادی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں زندہ ہیں۔ یہ تہذیب اپنے ارتقائی سفر میں آج جس تہذیب کے ویرانوں پر کھڑی ہے وہ اسلام ہے۔ ان ویرانوں میں آج بھی نمو کی وہ بے پناہ صلاحیت ہے کہ لا کھوں کروڑوں ارواح کا رخ اسلام کی طرف ہے۔ مغرب نے ان لوگوں کا رخ پھیرنے کے لیے ہی نہیں اسلام کے خلاف بھی میڈیا کو متحرک کررکھا ہے۔ اقبال نے جو بات مغرب کے بارے میں کہی تھی وہ میڈیا پر بھی صادق آتی ہے۔ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا بھی ان ہی چشموں سے پانی بھرتا ہے۔ اگر عالمی میڈیا کا ہدف اسلام اور امت مسلمہ ہے تو پاکستانی میڈیا بھی جہاں تک ممکن ہو ان ہی کی زبان بو لنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا پر لادینیت اور سیکولرازم کا غلبہ ہے۔ کوئی بھی موقع ہو ہمارا میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا اسلام کے خلاف محاذ کھولنے سے باز نہیں آتا۔ اہل پاکستان کے بدن سے روح محمدیؐ نکال دینے کے مشن پر گا مزن ہوجاتا ہے۔
اسلام غلبے کا دین ہے اور یہ کوئی ایسی معیوب بات بھی نہیں ہے۔ سیکولزازم، لبرلزم، کمیونزم، سرمایہ داریت سب غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔ کورونا کی وبا نے موجودہ عالمی استعماری نظام کو بری طرح بے نقاب کیا ہے جس نے دنیا کے تمام ممالک کو مجبور کررکھا ہے کہ وہ بجٹ کا بڑا حصہ صحت کی سہولت، عوامی فلاح وبہبود اور دیکھ بھال پر خرچ کرنے کے بجائے عالمی ساہو کاروں کو سود کی ادائیگی پر خرچ کریں۔ سرمایہ داریت کی چار بنیادوں شخصی آزادی، رائے کی آزادی، مال کی آزادی اور عقیدے کی آزادی کے کورونا نے پرخچے اڑا کر رکھ دیے لیکن اسلام کے کسی ایک عقیدے کو ختم کرنا تو درکنار متزلزل نہ کرسکا۔ اس کا بیڑہ ہمارے میڈیا نے اٹھا لیا۔ پہلے سائنس اور مذہب کا موازنہ کرنا شروع کیا گیا۔ کسی مغربی ملک میں سیکولرازم، لبرل ازم، کمیونزم اور سرمایہ داریت کی ترویج کرنے والے فلاسفہ حتی کہ عیسائیت اور یہودیت کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا کہ اس وقت جب کہ دنیا کورونا کی وبا سے نبرد آزما ہے یہ نظام اور مذاہب انسانیت کی فلاح اور کورونا کی ویکسین ڈیولپ کرنے میں کوئی حصہ نہیں لے رہے لیکن پاکستانی میڈیا پر ملحدوں اور مذہب بیزار طبقے نے اس بہانے اسلام پر حملہ کردیا گیا۔ کہا جانے لگا کہ معاشرے کو مولوی، مفتی اور علماء سے زیادہ سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔ ایسا کسی مارکیٹنگ کرنے والے شخص، انجینئر، بینکر، میڈیا پرسن یا کسی اور شعبے سے وابستہ فرد کے بارے میں نہیں کہا گیا سوائے اسلام سے جڑے ہوئے لوگوں کے۔
اسی دوران ہمارے ڈینٹسٹ صدر 25مارچ کو جامعہ ازہر سے فتویٰ لے آئے جس میں تحریر تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے پیش نظر جمعہ کی نماز کو معطل کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر کے مسلمان دین کے معاملات میں جامع ازہر کے فتاوی پر اعتماد نہیں کرتے۔ سونے پر سہاگہ ہمارا میڈیا جاوید احمد غامدی کو آن لائن لے آیا۔ ہر چینل، ہر اینکر پر لازم ہوگیا کہ وہ غامدی صاحب کو آن لائن لے اور جھوم جھوم کر ان کے خیالات کی اس طرح تائید کرے جیسے دین کی صحیح فہم بس ان پر ختم ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور دیگر علمائے کرام کو آن لائن لینے کے بجائے، ان کے پرانے کلپ چلائے گئے۔ معاملہ جمعہ کی نماز سے بڑھ کر پنج وقت نماز تک آگیا کہ مساجد ہی کو بند کردیا جائے۔ حکومت نے یہ لازم کردیا کہ جماعت میں ہاتھ کی انگلیوں جتنے افراد شامل ہوں۔ گزشتہ دو ہفتے سے جمعہ کی نماز پھر موضوع بحث ہے۔ گزشتہ ہفتے جمعے کے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی۔ جمعہ کی نماز کے لیے مساجد بند کردی گئیں۔ اس ہفتے 12بجے سے تین بجے تک کرفیو لگادیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر نا گزیر ہیں۔ صرف مساجد میں نہیں دیگر جگہوں پر بھی۔ لیکن جب نمازیوں، مساجد اور جمعہ کے اجتماعات کا ذکرکیا جاتا ہے تو یہ وہ خیر ہے جس میں شر کارفرما ہوتا ہے۔ مادی ضروریات کے آگے سجدہ ریز لوگوں کو محض مساجد کے اجتماع ہی سے وائرس پھیلتا نظر آتا ہے۔ اسی دوران بینک کھلے ہوئے ہیں۔ بینکوں کے باہر تیس تیس چالیس چالیس پنشن اور دیگر ضروریات والے دھوپ سے بچنے کے لیے سایے میں سمٹ کر کھڑے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز، راشن اور اشیاء صرف اور چکن کی دکانوں پر لوگ کھڑے ہیں۔ سبزی والوں کی دکانیں کھلی ہیں۔ میڈیکل اسٹورز پر بھی لوگوں کا اجتماع معمول ہے۔ وہ ادارے اور دفاتر جو پابندی سے مستثنیٰ ہیں وہاں بھی بیسیوں افراد گھنٹوں ساتھ کام کررہے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس اگر کہیں سے پھیل سکتا ہے تو وہ صرف مساجد ہیں۔ ماسک پہن کر، دستانے چڑھا کر، سینی ٹائزر لگا کر اگر دیگر کام ہوسکتے ہیں تو نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ ایک اور بات جس پر زور دیا جارہا ہے وہ یہ کہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی اسلامی طریقے سے تدفین ممکن نہیں۔ یہ انتہائی مہلک ہوسکتی ہے۔ اگر کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے محفوظ رہ سکتے ہیں تو ان ہی احتیاطی تدابیر کو اختیار کرکے اسلامی طریقے سے مردے کی باعزت تدفین کیوں ممکن نہیں۔
حکومت اور میڈیا کی اس پر بھی ٹھنڈ نہ پڑی تو تبلیغی جماعت کے خلاف طوفان اٹھا دیا گیا۔ اب تبلیغی جماعت والے پاکستان بھر میں کورونا کے فروغ کا سبب ٹھیرائے جانے لگے کیونکہ تبلیغی جماعتیں ملک بھر میں گشت کرتی ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہتھکڑیاں لگا کر تھانے میں بند کیا گیا۔ یہ بات فراموش کردی گئی کہ تبلیغی جماعت میں جماعتوں کی تشکیل کا عمل پورے سال جاری رہتا ہے۔ سہ روزہ، دس روزہ، چالیس روزہ اور سال بھر کے لیے۔ جس وقت لاک ڈائون کا اعلان کیا گیا تبلیغی جماعت کی سیکڑوں نہیں ہزاروں جماعتیں ملک بھر میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ذرائع آمدو رفت کی بندش کی وجہ سے ان جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ فوری طور پر گھروں کو لوٹ سکیں۔ جو ممکن تھا وہ تبلیغی جماعت والوں نے کیا۔ فوری طور پر رائے ونڈ اجتماع ختم کردیا گیا۔ کراچی، لاہور، ملتان اور ملک کے دیگر حصوں میں تبلیغی جماعت کے بڑے بڑے مراکز بند کردیے گئے۔ اس سے زیادہ وہ کیا کرسکتے تھے۔ 8مارچ کو پورے ملک میں میرا جسم میری مرضی کی بکواس چل رہی تھی۔ 11مارچ تک تماشائیوں سے بھرے اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کے میچز چل رہے تھے۔ 16مارچ تک اسکول کالجز وغیرہ بھی کھلے ہوئے تھے۔ 23مارچ یوم پاکستان کی تیاریاں بھی جاری تھیں۔ 20مارچ تک اندرون و بیرون ملک پروازیں بھی جاری تھیں۔ بازار بھی کھلے ہوئے تھے لیکن کورونا وائرس ملک بھر میں پھیلا ہے تو تبلیغی جماعت والوں کی وجہ سے۔ جس وقت پورے ملک میں تمام معاملات نارمل طریقے سے چل رہے تھے تبلیغی جماعت والے بھی معمول کے مطابق اشاعت دین میں مصروف تھے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کسی وجہ سے نہیں پھیلا اور نہ پھیل سکتا ہے، اگر پھیلا ہے اور پھیل سکتا ہے تو محض مساجد میں نمازوں کے اجتماع سے یا پھر تبلیغی جماعت والوں کی وجہ سے!!
بات کورونا سے بچائو کی احتیاطی تدابیر کی نہیں ہے۔ اس وبا کو بھی اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ کورونا نے ثابت کردیا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں اسلام ہی پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ حکومت اور میڈیا میں بیٹھی ہوئی کٹھ پتلیاں سن لیں یہ اسلام کے عروج اور کفر کے ٹوٹ کر بکھرجانے کی صدی ہے۔ کفر کے سامنے اب ایک ہی قوت ہے۔ ایک ہی قوت ہے جو کفر کو للکار رہی ہے۔ عالم کفر جس سے خائف ہے۔ امت احساس کمتری سے نکل کر ایمان اور یقین کی منزل کی طرف رواں ہے۔ اب اسلام کے سوا اس دنیا میں کسی دوسرے نظام کی گنجائش نہیں۔ کورونا کی وبا نے جمہوری حکومتوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی لاش امریکا اور یورپ میں سڑکوں پر پڑی سڑ رہی ہے۔ اب صرف وحی کی بنیاد پر قائم کیا گیا اسلام اور خلافت کا نظام ہی دنیا کی آخری پناہ گاہ ہے۔ جو بدبخت اسلام کے درپے ہیں، اپنی زبانیں اور قلم اسلام کو کمزور کرنے اور اس باطل نظام کو بچانے کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ اپنا انجام سوچ لیں۔