کورونا وائرس کے بعد سے پاکستانی سبزی خور ہوگئے

1765

کراچی(اسٹاف رپورٹر)دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی پھیل گیا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ جس سے زیادہ تر پاکستانیوں نے اپنے کھانے پینے کی عادات بدلتے ہوئے گوشت بالخصوص مرغی کا گوشت کھانے سے پرہیز شروع کر دیا ہے۔

مارکیٹ کی صورت حال بتا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے خدشے اور بالخصوص پاکستان میں کیسز سامنے آنے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد اپنی کھانے پینے کی عادات میں تبدیلیاں لائی ہیں۔ جہاں لوگ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے لگے ہیں وہیں گوشت کے استعمال میں نمایاں کمی جبکہ سبزیوں پھلوں اور دالوں کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق ابھی تک یہ بات تو ثابت نہیں ہو سکی کہ کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ کورونا وائرس کسی بھی ذریعے سے ایک جانور سے دوسرے جانور اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکٹر عاصم شہزاد کے مطابق کورونا وائرس جہاں بھی موجود ہو بے شک وہ ایک بے جان تہہ پر ہو اور اس کو انسانی ہاتھ لگ جائے اور پھر ہاتھ ناک یا منہ کو لگے تو وہ منتقل ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گوشت کھانے سے پرہیز کی تجویز اس لیے نہیں ہے کہ گوشت یا جانوروں میں کورونا وائرس موجود ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جگہ گوشت بنایا گیا، جس نے گوشت کاٹا یا جو گوشت لے کر آیا ان میں کسی میں بھی وائرس کی موجودگی ہو تو وہ باقی سب کو بھی لگ سکتا ہے۔

اس لیے اچھی طرح اور صاف ہاتھوں میں پکا ہوا گوشت کھانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کسی کو بھی گوشت کے استعمال سے منع نہیں کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گوشت کھانے سے کورونا وائرس ہو سکتا ہے وہ ایک سنی سنائی بات پر عمل کر رہے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کراچی میں گوشت کا کاروبار کرنے والے محمد سلیم قریشی کا کہنا ہے کہ کراچی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد گوشت کے استعمال میں 50 سے 60 فیصد کمی آئی ہے۔ پہلے ہم روزانہ 6جانور ذبح کرتے تھے اب 2سے 3 جانور کر رہے ہیں۔ اپنی دکان پر میں پورا جانور بیچتا تھا اب آدھا بھی فروخت نہیں ہوتا ہے۔

اسی طرح مرغی فروخت کرنے والے ٹیپو سلطان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اگر معمول میں پچاس مرغیاں بک جاتی تھیں تو اب صرف 20 فروخت ہوتی ہیں۔ ہمارا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔

سبزی فروش محمدزمان عباسی کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ لوگوں نے سبزی کے استعمال میں اضافہ کیا ہے۔ پہلے جو لوگ ایک سبزی لے کر جاتے تھے اب دو سے تین سبزیاں لے کر جاتے ہیں۔ اسی طرح وزن کے اعتبار سے بھی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گاہکوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کوا سکولوں سے چھٹیاں ہے،

اہل خانہ کے کھانے پینے کا انتظام کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف اپنے کچن میں تبدیلیاں کی ہیں بلکہ کھانے کی عادات بھی بدلی ہیں۔عائشہ گل ایک ورکنگ ویمن ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے صفائی ستھرائی کی اضافی کوشش کے ساتھ ساتھ مجبوری میں بھی باہر سے منگوائے جانے والا کھانا ترک کر دیا ہے۔ گوشت جو عموماً ہمارے کھانے کی میز کا لازمی جزو تھا اس میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس کے علاوہ اگر تندور سے روٹی لانا پڑ رہی ہے تو اس کے لیے بازار سے ملنے والے اخبار یا شاپر کے بجائے گھر سے صاف کپڑا لے کر جا رہے ہیں۔

خاتون خانہ ندا عزیز کا کہنا ہے کہ وہ ان دنوں دال سبزی اور سلاد کے علاوہ قوت مدافعت میں اضافہ کرنے والے فروٹ کھا رہی ہیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی کھلا رہی ہیں۔

ایک اور خاتون عروج عظمت کہتی ہیں کہ جب سے کورونا کا سن رہے ہیں ابھی تک ہم نے کسی چیز سے پرہیز تو شروع نہیں کیا گوشت سمیت سب وہ چیزیں جو معمول میں ہماری غذا کا حصہ تھیں وہ کھا رہے ہیں۔ کھانے کی عادات میں جو ہم نے تبدیلی کی ہے وہ یہ کہ ہم نے ہوٹلنگ چھوڑ دی ہے۔ صرف اپنے گھر میں صاف ستھرے ہاتھوں سے بنا اور کھا رہے ہیں۔