نعمت اللہ خان کی زندگی اور خدمات

857

ایک کامیاب وکیل، ایک متحرک فلاحی شخصیت اور ایک بے مثال ناظم کی پہچان رکھنے والے نعمت اللہ خان ہمہ پہلو شخصیت کے مالک ہیں، اور ضلعی نظامت کے دوران لازوال خدمت کرنے کے بعد “بابائے کراچی” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کے خاندان نے1948ء میں شاہجہاں پور، انڈیا سے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور کراچی میں آ بسا۔ کراچی آمد کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کے اہل خانہ کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کئی سال تک ایک کمرے کے مکان میں زندگی گزارنا پڑی۔ اعلٰی تعلیم کے حصول اور خاندان کی بقا کے لیے آپ نے سخت جدوجہد کی اور پارٹ ٹائم جاب کے علاوہ ٹیوشن کے ذریعے زندگی کی گاڑی چلائی۔

پیدائش، تعلیم

نعمت اللہ خان یکم اکتوبر1930ء کو مشہور مسلم بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری کی نگری اجمیر شریف کے علاقے شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شاہجہاں پور اور اجمیر سے ہی حاصل کی۔ پاکستان ہجرت کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیاجبکہ فارسی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ہی آپ نے صحافت میں ڈپلومے کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں انکم ٹیکس وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا، اور تب سے ایک کامیاب وکیل اور انکم ٹیکس کے معاملات کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

تحریک پاکستان میں شمولیت

زمانہ طالب علمی میں آپ نے تحریک پاکستان میں ایک فعال کارکن کے طور پر کام کیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف15 برس تھی اور آپ ابتدائی کلاسوں کے طالب علم تھے۔ اسی زمانے میں آپ نے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون سا زاسمبلی کے ہمراہ قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی “آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس” میں شرکت کی۔1946ء سے قیام پاکستان تک آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے منتخب صدر رہے۔ قیام پاکستان کے لیے عہد طفولیت کی اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج بھی نعمت اللہ خان پاکستان کا نام سن کر جذباتی ہو جاتے ہیں اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کیے بنا نہیں رہتے۔

جماعت اسلامی کے ساتھ

تحریک پاکستان کے دوران اسلامیان برصغیر پاک وہند سے کیے جانے والے وعدوں کو عملی شکل دینے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے لیے آپ نے1957ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، اور اس پیرانہ سالی کے باوجود اب تک اس خواب کی تعبیر پانے کے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا۔ حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آپ کی جماعت سے اٹوٹ وابستگی میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اور ایک عرصہ تک امیر رہے۔ آج کل نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

سندھ اسمبلی میں

سن 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اور اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں “اپوزیشن لیڈر” کے لیے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔

کراچی کا پہلا ناظم

سن 2001ء میں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بعد نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ ایک نئے نظام میں منی پاکستان کہلانے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی نظامت ایک بہت بڑا چیلنج تھی لیکن آپ نے عزم و ہمت، انتھک محنت اور امانت و دیانت کے ذریعے شہر کراچی اور اس کے باسیوں کی بے مثال خدمت کرکے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کیا، اور4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی۔ باوجود اس کے کہ آپ کو ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ لسانی تنظیم کے گورنراور صوبائی وزرا کے معاندانہ رویے کی وجہ سے شدید مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا لیکن آپ نے جوانمردی اور استقامت سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور کراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی کمپرومائز سے ہمیشہ انکار کیا۔

نعمت اللہ خان جب ناظم کراچی منتخب ہوئے تو شہر کی آبادی5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں شہر کے اندر شہری سہولیات کا فقدان اور ترقیاتی کاموں کا کہیں وجود نہیں تھا۔ شہری انفراسٹرکچر تباہ حال تھا اور پورا شہر کسی اجاڑ جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً تمام بڑی شاہراہیں اور اندرونی راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے، بڑی چورنگیوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا، سیوریج کا نظام ابتر تھا، اورکبھی روشنی کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے بہتر حکمت عملی سے آپ نے اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے اور شہری سہولیات فراہم کیں کہ پاکستان اور اس خطے میں اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔

نعمت اللہ خان نے اربوں روپے کی لاگت سے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کو سگنلائزڈ کیا، اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھادیا،ان شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے آپ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو “روشنیوں کا شہر” بنا دیا۔ ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے “اربن ٹرانسپورٹ سکیم” سکیم شروع کی اور باہر سے بسیں درآمد کرنے کے علاوہ کئی پرائیویٹ کمپنیوں کو بسیں چلانے کے لائسنس دیے۔ پہلی دفعہ500 بڑی، کشادہ اور ائیر کنڈیشن بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے درجنوں “پیڈیسٹرین برجز” کی تنصیب کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے ڈرائیور اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز تعمیر کیے گئے۔ اسی طرح ماس ٹرانزٹ کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا جس کے تحت87 کلومیٹر طویل مقناطیسی ریل چلائی جائے گی، جبکہ شہر میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس کی اورنگی، بلدیہ، کورنگی اور نارتھ کراچی تک اس کی توسیع کا منصوبہ منظور کرایا۔ شہر کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی خاص کر ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا اثر اب شہر میں نظر آرہا ہے۔

نعمت اللہ خان نے کراچی میں تعلیم کی بہتری کے لیے خاص توجہ دی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم کی مد میں ریکارڈ 31 فیصد رقم مختص کی۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل بہت سے اسکولوں میں طلبہ کو کرسی اور ڈیسک اور گرلز اسکولوں میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود نہ تھی، بہت سے اسکولوں میں پینے کا پانی تک مہیا نہیں تھا۔ آپ نے نئے اسکولوں کی تعمیر، پرانے اسکولوں کی تزئین و آرائش اور پانی کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ آج کراچی کے اسکولوں کی بدلی حالت زار آپ کی انھی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کی نظامت سے قبل سرکاری اسکولوں کے محض150 سے200 طلبہ اے یا اے ون گریڈ حاصل کر پاتے تھے، اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کے مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور “پروفیشنل ٹریننگ پروگرام” میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کے بعد یہ تعداد2000 تک پہنچ گئی تھی۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل شہر میں88 کالجز تھے، آپ نے 4 سال کی مختصر مدت میں ریکارڈ32 نئے کالجوں کا اضافہ کیا، اور تمام کالجوں میں آئی ٹی لیب کی تعمیر کو یقینی بنایا۔ ایک اور قابل ذکر کام تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس سکیم ختم کر کے مرکزی داخلہ پالیسی کا نطام اپنانے کے بعد تمام کالجوں میں میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانا ہے۔

کراچی کے عوام کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی آپ کی توجہ مرکوز رہی۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے علاوہ آپ نے10 مختلف مقامات پر” پرچیسٹ پین سنٹر” کے قیام کا منصوبہ پیش کیا۔ اس میدان میں آپ کا خاص کارنامہ

کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز

کے نام سے امراض قلب کے جدید ترین ہسپتال کا قیام ہے۔ ملیر میں نئے ہسپتال کی تعمیر کے علاوہ نیو کراچی میں اور کورنگی ہسپتال میں “کڈنی ڈائلیس سنٹر” کا قیام بھی آپ کے دور میں عمل میں آیا۔ اسی طرح ناظم شہر کے کیمپ آفس میں کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والا جدید ترین “ڈائیگنوسٹک سنٹر” بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کے دور میں کراچی کی ضلعی حکومت پاکستان کی واحد ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تھی جس نے زیر تربیت ڈاکٹروں کو وظائف فراہم کیے۔

نعمت اللہ خان کی ایک پہچان”ماحول دوست” ناظم کی ہے۔ آپ نے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی ہیوی انڈسٹری کی شہر سے باہر منتقلی کی بھرپور مہم چلائی اور کراچی بلکہ ملک بھر میں پہلی دفعہ سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا۔ آپ نے محکمہ باغبانی کو متحرک کیا اور شہر میں اتنے پارکس اور پلے گراونڈز تعمیر کرائے کہ اب کراچی پارکوں اور سبزے کا شہر نظر آتا ہے۔ آپ نے4 برسوں میں300 پارکس کو ازسر نو تعمیر کرایا،300 پلے گراونڈز کی حالت بہتر کرائی، بیشتر میں فلڈ لائٹس کی تنصیب ہوئی، جبکہ کراچی کے 18ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ یہ ماڈل پارکس ملک بھر میں اپنی نوعیت کےمنفرد پارک ہیں۔ اسی طرح دامن کوہ، باغ ابن قاسم اور گٹر باغیچہ پارکس جیسے میگا پروجیکٹس کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا۔ سفاری پارک میں پاکستان کا سب سے بڑا سفاری ایریا ہے جو مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب35 سال سے بند تھا، آپ نے اس پر کام شروع کیا، جانوروں کی تعداد میں اضافہ کیا، سفاری کوچز چلائیں، اور اب روزانہ ہزاروں افراد اپنی فیملیز کے ہمراہ یہاں آتے ہیں۔

پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے آپ نے “کے تھری واٹر سپلائی پروجیکٹ” شروع کیا جس سے روزانہ دس لاکھ گیلن پانی شہریوں کو فراہم ہو سکے گا۔ اسی طرح آپ نے واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب اور سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کر کے کارخانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کے معاہدے کیے۔ سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ 50 سالہ پرانی پائپ لائنوں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی اور نئے پمپس کی تنصیب کرائی۔ کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کے لیے500 سولڈ ویسٹ ٹرانسفر اسٹیشن تعمیر کیے۔

نعمت اللہ خان کراچی کی کچی آبادیوں کو شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ شہر کی52 فیصد آبادی رکھنے والی ان آبادیوں پر بھی آپ نے خصوصی توجہ دی۔ اس آبادی کا ایک خاص مسئلہ لیز پر زمین کی فراہمی ہے۔ آپ نے1999ء میں بڑھائے جانے والے لیز کے نرخ منسوخ کر کے1989ء کے نرخ بحال کیے جس سے لاکھوں غریب لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچا۔ اسی طرح اپنے صوابدیدی فنڈ سے ضرورتمند اور بےروزگار افراد میں سوا کروڑ روپے کی سلائی مشینیں، سائیکلیں، جہیز بکس اور دیگر سامان تقسیم کیا۔

نعمت اللہ خان نے شہری سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے فروغ، دینی معلومات میں اضافے اور اسلامی فن و ثقافت کی ترویج اور کھیلوں کی ترقی کے لیے بھی مختلف عملی اقدامات کیے۔ شہریوں میں ابلاغ دین، قرآن وسنت کے پیغام کو عام کرنے اور معاشرے میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیا کے لیے “قرآن و سنہ اکیڈمی” قائم کی۔ اسی طرح “المرکز الاسلامی” کا منصوبہ مکمل کرایا جس میں ایک بڑی لائبریری، آڈیٹوریم، مسجد اور آرٹ گیلری برائے فنونِ لطیفہ شامل ہیں۔ سیٹیزن کمیونٹی بورڈ، تھانوں میں لائبریریرز کا قیام، پبلک مقامات پر ائیرکنڈیشن لائبریریوں کی تعمیر، ویمن اسپورٹس کمپلیکس اور ویمن لائبریری کمپلیکس کی تکمیل اور مختلف اسلامی، اصلاحی اور سماجی پروگرامات کا انعقاد آپ کی بہترین کاوشوں کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔

کراچی میں پہلی بار سٹی گیمز کا انعقاد بھی آپ کا ایک کارنامہ ہے۔ کل21 کھیلوں کے یہ مقابلے18 ٹاونز کی تمام178 یونین کونسلوں کی سطح پر منعقدہ ہوئے۔ یہ کھیل شہر میں کھیلوں کے فروغ و صحت مند ماحول کی فراہمی اور اتحاد و یکجہتی کے جذبات کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے، اور گراس روٹ لیول سے کھیلوں کے بیش بہا ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔

نعمت اللہ خان کے مخالفین بھی ان کے اخلاص اور امانت داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے دیانت کی مثال قائم کی اور کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک منصوبہ کہ پی سی ون میں جس کا تخمینہ25 کروڑ روپے تھے، آپ کے دوبارہ ٹینڈر کرانے سے اس پر لاگت کا تخمینہ صرف6کروڑ روپے آیا۔ اسی طرح شاہراہ فیصل فلائی اوور پر26 کروڑ31 لاکھ کا تخمینہ لگایا گیا مگر آپ نے اسے18 کروڑ میں مکمل کرایا۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ساڑھے آٹھ کروڑ کی کرپشن کا خاتمہ کیا۔ آپ نے تمام ٹینڈرز اور معاہدوں کی جانچ پڑتال اور نیلامی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا، اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے بنایا اور پھر اس کے نفاذ کو یقینی بنایا۔

نعمت اللہ خان نے اپنی انتھک محنت اور کوششوں کے بعد شہری حکومت کے بجٹ میں حیران کن حد تک اضافہ کیا اور اسے5 ارب سے43 ارب تک لے گئے۔29ارب کا “تعمیر کراچی پروگرام” بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

ناظم کراچی کی حیثیت سے آپ نے ہفتے میں ایک دن عوامی رابطے کے لیے مختص کیا۔ اس دوران ساٹھ ہزار سے زائد عوامی مشکلات و مسائل کو حل کیا۔ ابتدائی تین سالوں میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور عامۃ الناس سے2 لاکھ خطوط، فائلیں، فیکس اور ای میلز موصول ہوئیں جس پرآپ نے مختلف محکموں کو احکامات جاری کیے۔ شہری مسائل کے حل کے لیے صدر پاکستان، گورنر، وزیر اعلٰی اور چیف سیکرٹری سندھ سے ملاقاتیں کیں، ورلڈ بنک اور ایشین بنک کے علاوہ کراچی میں مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں اور تعلیمی وفود سے ملاقاتوں کے علاوہ2500 کے قریب عوامی جلسوں اور افتتاحی تقریبات میں شرکت کی۔ نعمت اللہ خان بلاشبہ کراچی کے سب سے بہترین اور کامیاب ترین مئیر تھے۔ آپ نےبر وقت عوامی مسائل کے حل، سہولیات کی تیز رفتار فراہمی، بے مثال ترقیاتی کاموں اور امانت کا جو معیار قائم کیا ہے، وہ کراچی کے عوام میں ایک “رول ماڈل” کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور اب وہ ہمیشہ نئے آنے والے ناظمین کی صلاحیتوں کا نعمت اللہ خان کی کامیابیوں کے ساتھ موازنہ کریں گے۔

نعمت اللہ خان کی بہترین شہری خدمات کے نتیجے میں2005 میں دنیا کے بہترین مئیرز کی فہرست میں شامل ہوئے، مگر حتمی نتیجہ آنے سے قبل ہی آپ کی مدت نطامت ختم ہو گئی۔ آپ کی لازوال خدمات کے نتیجے میں بلامبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کی نظامت کا عرصہ باقی ہوتا تو آپ کا نام “ٹاپ مئیرز آف دی ورلڈ” کی لسٹ میں آجاتا۔

مسیحا کے روپ میں

کسی بھی ناگہانی آفت و مصیبت کے وقت نعمت اللہ خان ہمیشہ متأثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ الخدمت ویلفئیر سوسائٹی کےخالق اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے آپ نے کراچی کی غریب اور کم آمدنی والی آبادی کے لیے کئی ویلفئیر سکیمیں بنائیں اور پورے شہر میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، اسکولوں اور مدارس کا جال سا بچھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ1996ء میں دادو،سندھ میں سیلاب،1997ء میں ہرنائی، بلوچستان میں زلزلے،1998ء میں تربت وگوادر، بلوچستان میں سیلاب،1999ء میں کیٹی بندر، جاتی، بدین اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان کے موقع پر ریلیف آپریشنز کی قیادت کی اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا۔

سن 1997 ء میں تھرپارکر میں آنے والے قحط کے دوران اور اس کے بعد نعمت اللہ خان نے تھرپارکر کے وسیع و عریض صحرا کے چپے چپے پر عوامی خدمت کا جو کام جماعت اسلامی کے نظم، کے تحت محدود وسائل سے کیا، وہ کروڑوں ڈالر کی بیرونی امداد پانے والی این جی اوز کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔آپ نے تھرپارکر میں میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے “زمزم پراجیکٹ” کے نام سے 363 کنویں کھدوائے جن سےہزاروں بے وسیلہ صحرانشینوں کو پانی فراہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح1000 سے زائد دیہاتوں میں “العلم پراجیکٹ” کے نام سے ان مظلوم و محروم لوگوں کی نئی نسل کوزیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول قائم کیے جو اکیسویں صدی میں بھی زمانہ قبل از تاریخ کے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ1997ء سے اب تک اس بے آب و گیاہ صحرا کے دور دراز گوشوں کا طویل، تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر کر کے ان مفلوک الحال لوگوں کی خبر گیری کرتے رہے ہیں، اور ان کی ضرورت کی چیزیں ان کے گھروں کے دروازے تک پہنچاتے رہے ہیں۔

اکتوبر2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی امداد و بحالی کے لیے آپ کو الخدمت پاکستان کا کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ نے زلزلہ متاثرین تک نہ صرف کروڑوں روپے کی مالی امداد پہنچائی بلکہ انھیں غذائی سامان، کپڑے، کمبل اور خیمے بھی مہیا کیے۔ آپ آج کل بے گھر متاثرین زلزلہ کے لیے گاوں بسانے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔

نعمت اللہ خان کی فلاحی سرگرمیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت دیگر اسلامی ممالک کے مصیبت زدہ عوام کی مدد کے لیے بھی آپ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ گزشتہ سال اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کی تو نعمت اللہ خان نے مظلوم لبنانیوں کی داد رسی کے لیے وہاں کا دورہ کیا اور کروڑوں کی امداد بہم پہنچائی۔

حال میں آپ نے “فکر ملی ٹرسٹ” کے تحت ایک تھنک ٹینک ادار قائم کیا ہے۔ اس تھنک ٹینک سے چئیرمین آئی ایس پی آر پروفیسر خورشید احمد، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر جمیل جالبی، سابق چئیرمین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ڈاکٹر پریشان خٹک، سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محمد رفیق، معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، معروف دانشور لیفٹننٹ جنرل(ر) حمیدگل اور سابق گورنر بلوچستان لیفٹننٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ جیسے لوگ منسلک ہیں۔