ترکی عظمتِ رفتہ کی بحالی کی راہ پر!!!

594

ایک وقت تھا جب ترکی کا کسی دوسری سرزمین پر قدم جمانا ناقابل تصور تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی ترک جمہوریہ ایک باشعور ریاست تھی۔ اس کے بانی کمال اتاترک، “گھر میں امن ، دنیا میں امن” کے منتر کو پسند کرتے تھے جس کے باعث غیر ملکی مہم جوئی کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ وہ علاقے جن کے انتظامی امور کبھی استنبول کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے اور بعد میں ترک عوام کیلئے پسماندہ اور اجنبی ہوگئے، آج وہی ترکی خلافت عثمانیہ کے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی فوجیں دوسرے ممالک لیبیا، شام، عراق اور حتیٰ کہ قطر میں بھیج رہا ہے جبکہ قطر، صومالیہ اور سوڈان میں فوجی اڈے بھی قائم کر دیئے ہیں۔

ترکی کی یہ نئی فوجی مہم اس کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کے تحت ترکی مشرقی وسطیٰ سے متعلق معاملات میں ایک اہم کردارادا کرے گا اور ترکی کی یہ حکمت عملی اس وقت سامنے آئی ہے جب حالیہ دنوں میں مشرقی وسطیٰ میں امریکا کو نظریاتی اور عملی طور پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جنوری میں ، ترک پارلیمنٹ نے لیبیا میں جنرل خلیفہ ہفتار کے خلاف اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کی مدد کیلئے اپنی افواج بھیجنے کی منظوری دی تھی جو کہ ترک افواج کا 1912 میں خطے سےعثمانیہ خلافت کے انخلاء کے بعد لیبیا میں داخل ہونے کا پہلا موقع ہے۔

شام کے صوبہ ادلیب میں ترک فوجیوں کا تازہ ترین حملہ ،جس میں صدر بشار الاسد کی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، محض شمالی شام میں ہونے والی متعدد کارروائیوں کا ایک حصہ ہے لیکن اس حملے نے ترکی کو کرد جنگجوؤں کےبرعکس براہ راست شام کی ریاست کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔ مگریہی کرد جن کے خلاف ترکی شام میں سرگرم عمل ہے، عراق اور قطر میں ترک افواج ان کی مدد کو پہنچی جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ترک کا موقف مختلف ریاستوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے الگ ہےاور ایک خاص ایجنڈا ظاہر کرتا ہے۔

اگرچہ لیبیا میں جی این اے کو اتحادیوں کی کمی ہے لیکن قطر اور ترکی نے مشرق وسطی ٰمیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اسلام خلاف پالیسیوں کےرد عمل میں اپنی مدد کی پیش کش کی اور یہ تصادم اگر ایک طرف گلف کارپوریشن کونسل کی ریاستوں کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کیے جانے کا سبب بنا تو دوسری طرف قطر میں ترکی کو اپنا بیس قائم کرنے کا دعوت نامہ بھی تھا۔

سن 2016 میں عراق میں بشیقا اڈے پر ترک فوجیوں کو مدعو کرنا عراقی ریاست کے اندر اقتدار کی خواہاں مختلف طاقتوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا جس کے تحت کرد علاقائی رہنما مسعود بارزانی شیعہ اکثریتی اوربغدادی حکومت پر اثر اندا زایران کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لئے ترکوں کے ساتھ اپنا اتحاد بڑھا رہے ہیں۔

ترکی کی غیر ملکی مہمات کی وجوہات جو بھی ہوں مگر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت نے یوکرائن اور شام میں روسی اقدام کی کامیابی اور استثنیٰ کی وجہ سے اس بات کا حساب لگایا ہے کہ زمین پر اپنے وسیع اختیارات قائم کرنا آپ کو جغرافیائی سیاسی لحاظ سے سبقت دیتا ہے اور کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماضی میں، ترکی غیر ملکی مہم جوئی کے بارے میں بہت محتاط تھا کیونکہ اسےخود مختار ریاستوں کے ساتھ تنازعات کا خطرہ تھا لیکن آج کے مشرق وسطی کے کئی خطوں میں متعدد ریاستیں یا تو ناکام ہیں یا ناکام ہورہی ہیں۔ لیبیا، شام اور عراق میں اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے اور حملہ آوروں کے بھلے بہت محدود مقاصد ہوں لیکن پھر بھی وہ کارگر ضرور ہیں۔

قطع نظر ترکی کی نیشنل ایکشن پارٹی (ایم ایچ پی) کے رہنما ڈیولیٹ باسیلی کے دمشق حاصل کرنے کے مطالبے کے، ترکی کبھی بھی کسی ریاست پر قابو پانے کا خواہش مند نہیں رہا۔ اس نے اپنے تمام تر حملوں کے مقاصد کو سختی سے محدود کیا ہے۔ اس کا واحد مقصد وسیع تنازعات میں اپنے آپ کو ایک بہتر اور دفاعی پوزیشن میں رکھنا ہے۔

فرانس، جو کہ لیبیا میں جنرل ہفتار کا حمایتی ہے، نے طرابلس میں ترکی کی مداخلت پر تنقید کی لیکن آج کے مشرق وسطیٰ میں اس طرح کی تنقید بے معنی ہے۔ کوئی بھی ریاست ایسی سپر پاور کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کھڑی ہوسکتی ہے جو امن کی ضمانت نہ دیتی ہو۔

ترکی کے دشمن اپنی حد سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں لیکن دشمنوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ماضی میں کتنے طاقتور رہے ہیں۔ ریاستیں کمزور ہیں، طاقتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء ہیں۔

دشمن خطے میں ترکی کی کارروائیوں کو ناپسند کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہر ایک نئی چال چل رہا ہے۔ اگر آپ کسی بھی مخصوص خطے، تنازعات کا حصہ یا توانائی اور وسائل کی تقسیم کی میز پر رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی طاقت اور موجودگی کو محسوس کروانا پڑے گا۔ پھر آپ کو کرسی کی پیشکش کی جائے گی۔