خون سے لکھی ایک ہی کہانی

348

میاں منیر
لولاب سے پلوامہ اور کپواڑہ سے سری نگر تک ایک ہی کہانی ہے‘ جس کا عنوان خون سے لکھا جارہا ہے‘ بھارت سے امریکہ اور امریکہ سے یورپ تک بھی ایک کہانی ہے جس کا عنوان بے حسی سے لکھا جارہا ہے مگر ہمیں خون اور بے حسی میں فرق سمجھنا ہے اور یہی پانچ فروری یوم یک جہتی کا پیغام‘ عنوان اور کہانی ہے‘ اگست کے بعد اب تک مقبوضہ کشمیر میں بہت کچھ بدل چکا ہے‘ مگر پوری دنیا اس تبدیلی کو صرف دیکھ ہی نہیں رہی بلکہ سرپرستی کر رہی ہے‘ اور یہی المیہ ہے اس سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ امت مسلمہ خاموش ہے‘ اس نے لب سی رکھے ہیں‘ یہ دنیا کاروباری مفادات کی اسیر ہے اس نے بھارت کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہے کرتا جائے اسی لیے تو بھارت مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق حقائق کو مسخ کر رہا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے بے نقاب ہوگئے ہیں کیوں کہ وہاں آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔ بھارتی میڈیا عام طور پر اپنی خبروں کو کشمیر کے بارے میں گمنام سرکاری ذرائع کے حوالے سے منسوب کرتا ہے اور اس وقت وہ حکومت کے ترجمان کا کردار ادا کررہا ہے ہندوستانی حکومت میڈیا مالکان اور صحافیوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے کشمیر میں اعصاب کی لمبی جنگ ہوگی آج کل کچھ کہنا اور لکھنا جتنا مشکل ہے ماضی میں کبھی نہیں تھا‘ نہ جانے کیوں برداشت کم ہوگئی ہے‘ کسی بھی تجویز اور مشورے کو منفی معنی اور رخ سے دیکھا اور پرکھا جانے لگا ہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خاموش رہنے لگے ہیں‘ اس خاموشی میں تلخی بڑھ رہی ہے بہتر ہے کہ لوگوں کی بات سنی جائے‘ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں انہیں کہنا دیا جائے‘ مقبوضہ کشمیر میں آواز دبائی جارہی ہے‘ فلسطین میں بھی ایسا ہورہا ہے‘ مصر میں اخوان کو خاموش کرادیا گیا ہے بنگلہ دیش میں ملا قادر جیسے بزرگ پھانسی پر لٹکا دیے گئے ہیں‘ ان سب کا جرم کیا ہے انہوں نے آواز اٹھائی اور پھانسی پاکر مر نہیں گئے بلکہ امر ہوگئے ہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں جس نے بھی آزادی مانگی اسے قبر کی قید فراہم کی گئی‘ جس نے زندگی مانگی اسے قبرستان کے شہر میں بسا دیا گیا‘ بھارت کی فوج ایسا اس لیے کر رہی ہے اس نے تاریخ کا سبق نہیں پڑھا اور نہ سیکھا‘ اگست کے بعدمقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے حقیقت یہ ہے کہ سری نگر سے بارہ مولہ تک‘ کپواڑہ سے اسلام آباد اننت ناگ‘ راجوری‘ بانڈی پورہ‘ بڈگام ہر جگہ زندگی آزادی مانگ رہی ہے‘ زعفران اپنا رنگ چھوڑ چکا ہے‘ سرسوں کے پیلے پتے مرجھائے ہوئے ہیں‘سیب کے باغات اور پانی کے چشمے اداس ہیں ہر جگہ بھافتی فوج کا پہرہ ہے سنگینوں کے زہر کے سایے تلے یہاں زندگی کا چہرہ نیلا پڑچکا ہے لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سر اٹھا کر بھارت سے نہیں پوچھا کہ اس نے اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی انسانی حقوق کی رپورٹ مسترد کیوں کی‘ کیا آج کی دنیا طاقت کے ساتھ ہے‘ دوسری عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشن کیوں ٹوٹی تھی اور اس کی جگہ اقوام متحدہ نے کیوں لی‘ وجہ یہی تھی کہ لیگ آف نیشن اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی اب اقوام متحدہ ناکام نظر آتی ہے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو دبانے کے لیے ہر قسم کا اسلحہ استعال کرکے دیکھ لیا‘ مگر شہداء کی مائوں کے دودھ اور بہنوں نے آنچل نے آزادی کا جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑا‘ جدید ترین اسلحہ سے لیس بھارت کی فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کے محاصرے میں ہے‘ بھارت نے آج تک جو کچھ کرنا تھا کرلیا اب اس نے آئین میں آرٹیکل ختم کرکے اپنے لیے ایک نیا میدان چنا ہے‘ بھارت اب بندوق کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی استعماری قوتوں کو اپنے ساتھ ملا چکا ہے یوں ان پاکستان اور کشمیریوں کا نیا امتحان شروع ہوا ہے یہ غیر معولی امتحان ہے جس میں اعصاب کی ایک لمبی جنگ ہے یہ جنگ اگلی نسلوں تک بھی جاسکتی ہے‘بھارت کے انٹیلی جنس ادار ے سیکورٹی فورسز جتنا چاہیں ظلم، تشدد اور قید و بند کا ہر حربہ استعمال کرلیں وہ تحریک آزادی کے پر نہیں کاٹ سکتے نریندر مودی کا اقتدار ختم ہوجائے گا‘ سیکورٹی فورسز کے طریقہ ہائے ظلم اخری ہچکی لے سکتا ہے‘ جبر و تشدد کا رنگ ذرد پڑ سکتا ہے مگر برہان الدین مظفر وانی پیدا ہوتے جائیں گے‘ دنیا جانتی ہے کہ برہان کی گرفتاری کن حالات میں ہوئی تھی اور اس نوجوان کو کیسے شہید کیا گیا تھا‘ یہ واقعہ کیسے اور کہاں ہوا‘ قومی اسمبلی کے تین سو بیالیس اور سینیٹ کے ایک سو چار ارکان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اس واقعہ کی تمام تفصیلات کا علم ہو‘ یہی حال کشمیر پر لکھنے والے موسمی لکھاریوں کا ہے‘ جذباتی جملوں کی بجائے ہمیں کشمیر پر ہونے والی ہر ہر پیش رفت کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے کہ پاک بھارت مزاکرات اور کشمیر کے مسلئہ کے حل کی کوشش کہاں کہاں نئے موڑ آئے ہیں‘ کیا نئی تجویز اختیار کی گئی اور کن اصولوں اور موقف کو خیر باد کہہ دیا گیا اس وقت تو کشمیریوں نے طاقت کے مقابلے میں اصول کھڑے کیے ہیں انہی اصولوں کی وجہ سے تحریک زندہ ہے اصول طاقت کے مقابلے میں ہار مان جاتے تو آج تحریک بھی زندہ نہ ہوتی جب تک اصول زندہ رہیں گے گھر گھر فوجی بٹھانے اور لوگوں کو سنگینوں کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور کرنے پر بھی بھارت کامیاب نہیں ہوسکتا‘ بھارتی سرکار چاہتی ہے کہ اب کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو جائے لیکن یہ ممکن نہیں‘ بے پناہ حسن اور قدرتی وسائل سے مالا مال کشمیر کسی غیر ملکی سرمایہ کاری کا محتاج نہیں ہے‘ وہ اپنے زعفران سے پوری دنیا خرید سکتا ہے اس کی ایک ڈھل جھیل اور ریاست کے ہر جگہ کی سیاحت اسے بے پناہ وسائل دے سکتی ہے لہذا کشمیریوں کو سرمایہ کاری سے نہیں جیتا جاسکتا ایسا سوچنے والے اپنی تجوریوں کے منہ بند ہی رکھیں تو بہتر ہے پوری ریاست کا فیصلہ یہی ہے کہ کوئی اس کا ساتھ دے نہ دے‘ سفارتی‘ اخلاقی اور سیاسی حمائت ملے نہ ملے کشمیری حق خودارادیت اور آزادی کے نعرے سے دستبردار نہیں ہوں گے ایک سو اسی روز کا کرفیو کوئی معمولی بات نہیں‘مسلسل کرفیو کی وجہ سے وہ اور ان کے بچے فاقوں پر مجبور ہیں لیکن وہ اب بھی آذادی مانگ رہے ہیں دولت،اور عہدے‘ آزادی کا متبادل نہیں ہو سکتے بر صغیر کی تقسیم کے وقت کیا ہوا تھا؟ وہاں کے ڈوگرہ حکمران کو خرید کر کشمیر اپنے نام کرنے کی سازش کی تھی نہرو اور شیخ عبداللہ اس کیھل کے ہیرو تھے کیا کبھی کشمیریوں نے بھارت کے حق میں رائے دی ؟ ماضی کے مقابلے میں آج پورے مقبوضہ کشمیر کی قیادت حق خودارادیت کے لئے یک آواز ہو چکی ہے ریاست کے بڑے بڑے سیاست دان سید علی گیلانی کے سامنے بونے معلوم ہورہے ہیں ریاست کی اصل حقیقت سید علی گیلانی ہیں بھارت کچھ بھی کرلے کوئی پروپیگنڈہ اس کے کام نہیں آئے گا۔