ہوئے تم دوست جس کے…

348

یہ کالم ایک کھلا خط ہی سمجھیں‘ کھلا خط ایک ایسی حکومت کے لیے ہے جسے اپنی خوبیوں کی تشہیر کے لیے دبائو کا حربہ اختیار کرنا پڑتا ہے‘ کبھی ایسے ہی کام کے لیے درخواست کی جاتی تھی تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دبائو اور درخواست دونوں ہی ہمیشہ بے مقصد ثابت ہوئے ہیں ہر حکومت کے ترجمان یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ رائے عامہ کی قومی نبض سے واقف ہیں جسے آج کل نیشنل پلس کا نام بھی دیا جاتا ہے‘ لیکن قومی نبض سے واقفیت ہو تو کبھی کسی حکومت کو اپنی خوبیوں کی تشہیر کے لیے دبائو کا حربہ اختیار کرنا پڑے اور نہ کسی سے درخواست کرنی پڑے‘ معاملہ یہی ہے کہ ہر حکومت اور اس کے ترجمان یہی سمجھتے رہے کہ وہ قومی نبض سے واقف ہیں‘ ملک میں جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی تو ملکی اخبارات میں پیپلزپارٹی کے بارے میں کوئی خبر شائع نہیں ہوتی تھی‘ کسی کو خیر خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ پیپلزپارٹی ہے یا نہیں‘ مگر جب 1988 میں انتخابات ہوئے تو وہی پیپلزپارٹی سادہ اکثریت لے کر وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ ضیاء الحق حکومت اور اس کے ترجمان بھی یہی سمجھتے رہے اور مسلسل اپنے ہامیوں کو بھی یہی سمجھاتے رہے کہ فکر اور غم کی کوئی بات نہیں کیونکہ قومی نبض پر ان کی نظر ہے‘ جب انتخابات ہوئے سندھ میں غلام مصطفی جتوئی‘ پیر پگارہ اور کھوڑو خاندان کے امیدوار اور پنجاب میں چودھری شجاعت حسین جیسے مرکزی رہنماء سب پیپلزپارٹی کے مقابلے میں شکست کھا گئے۔
سولہ سترہ برس قبل‘ ملک میں جنرل مشرف اقتدار میں تھے‘ 2002 کے انتخابات میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں جلاوطنی کے باعث میدان میں نہیں تھے بی اے کی شرط کی وجہ سے نواب زادہ نصراللہ خان اور ان جیسے بے شمار سینئر سیاست دان بھی انتخابی عمل سے باہر تھے‘ مسلم لیگ (ق) کے لیے میدان صاف تو نہیں البتہ سازگار ضرور تھا جب انتخابی نتیجہ سامنے آیا تو مسلم لیگ (ق) کے صدر میاں اظہر لاہور اور شرق پور دونوں سے انتخاب ہار گئے تھے اور مسلم لیگ (ق) کی صدارت بھی ان سے چھن گئی، اس قدر ساز گار حالات کے باوجود مسلم لیگ کو حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ گروپ بنانا پڑا‘ اور اس کے بعد بھی محض ایک ووٹ کی برتری سے وفاق میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت بن سکی‘ ترجمان اس وقت بھی دعویٰ کرتے تھے کہ رائے عامہ قومی نبض ان کی نظر میں ہے۔ تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی تو اسے وزارت اطلاعات و نشریات سے بہت گلے شکوے تھے‘ بلکہ تحریک انصاف یہ چاہتی تھی کہ وزارت اطلاعات و نشریات کی کوئی ضرورت نہیں‘ جب حالیہ انتخابا ت کے اسے اقتدار ملا‘ بلکہ درست الفاظ یہ ہیں کہ جب اقتدار دلایا گیا‘ تو خیال یہی تھا کہ تحریک انصاف وزارت اطلاعات ختم کر دے گی اور ماضی میں اختیار کی جانے والی اشتہار بطور ہتھیار پالیسی ہمیشہ کے لیے ختم کردی جائے گی یہ وزارت تو ختم نہیں ہوئی تاہم کچھ اصلاحات کے لیے کام کا آغاز ضرور ہوا‘ لیکن انہیں نہیں چلنے دیا گیا اور ان کی وزارت تبدیل کردی گئی یوں مسلم لیگ (ق) سے پیپلزپارٹی اور وہاں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والی سیاسی شخصیت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو وزیر اعظم کی معاون خصوصی مقرر کرکے وزارت اطلاعات ان کے حوالے کی گئی۔
آج کل ایک پالیسی‘ اسے فیصلہ یا اسے حکمت عملی کہہ لیں نافذ ہے‘ حکومت وزارت اطلاعات کے ذریعے حکومت کی خوبیوں کی تشہیر کرے گی‘ اس میں کوئی برائی بھی نہیں‘ ہر حکومت اس وزارت سے یہی کام لیتی آئی ہے‘ خرابی یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا‘ رائے عامہ کی قومی نبض کا احوال جاننے کے لیے اگر کوئی حکومت سرکاری افسروں سے کام لے گی تو اسے کبھی بھی حقائق تک رسائی نہیں مل سکے گی اور یہ سکہ بند بات ہے‘ تجربہ ہے اور مشاہدہ ہے قومی نبض پر نظر رکھنے کے لیے حکومت وقت کو صرف ایک کام کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں صرف قانون سازی ہو‘ اور ترقیاتی کام ضلعی حکومتوں کے سپرد کیے جائیں‘ پنجاب حکومت سمیت ہر صوبائی حکومت اس بات کی آئینی طور پر پابند ہے کہ وہ ایسا نظام بنائیں گی جس کے ذریعے بلدیاتی حکومتیں کام کریں‘ بلدیاتی حکومت ہی ضلع میں تعلیم‘ صحت عامہ کو سنوار سکتی ہے اور مہنگائی کے جن کو قابو بھی کر سکتی ہے لیکن شر ط یہ ہے کہ یہ ادارے فعال بنائے جائیں‘ اور ان اداروں کے سربراہ ضلع میں بلا امتیاز تجاوزات کے خلاف کارروائی کریں‘ مہنگائی کنٹرول کریں‘ پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں تاجر تنظیموں کی نمائندگی بہترین ربط قائم کرنے کے لیے کی گئی تھی لیکن اب اس بارے میں دوبارہ سوچنا ہوگا کہ ان کی پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں ضرورت ہے یا نہیں‘ ہوتا ہے کہ ہر جگہ‘ اشیائے خورد کی قیمتیں تاجر تنظیموں کے مشورے سے طے کی جاتی ہیں اور مہنگائی پھر کیسے ختم ہوگی؟ یہ کام ہو نہیں رہا‘ ہر حکومت مصنوعی کام کرتی ہے آج کل بھی یہی ہو رہا ہے کہ وزارت اطلاعات بطور ہتھیار استعمال ہورہی ہے‘ یہ کام ضیاء الحق نے کرکے دیکھ لیا‘ جنرل مشرف بھی کر چکے‘ اور ان کے بعد اور اس سے پہلے گزرنے والے تمام حکمران بھی یہ کام کرکے دیکھ چکے‘ اس کام نے انہیں کوئی نتائج نہیں دیے‘ بہتر یہی ہے کہ حکومت آئین اور بہترین طرز سیاست اور مثبت ذہن کے ساتھ کام کرے‘ حکومتی افسروں کے بجائے تحریک انصاف کے کارکن سے پوچھے اور معلوم کرے کہ عوام کی نبض کیسی چل رہی‘ امید اور یقین ہے کہ تحریک انصاف کا ہر مخلص کارکن کھری بات کرے گا‘ وزارت اطلاعات کے افسروں سے کہیں بہتر رائے دے گا اور نتائج بھی بہت بہتر ملیں گے‘ ورنہ وزارت اطلاعات کو میڈیا کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا بے سود رہے گا۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ اشتہار بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں رہی۔