معیشت اور حکومت اور سی ڈی اے

406

عالمی ریٹنگ کے ادارے فچ نے پاکستان کی ریٹنگ جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کو بی مائنس ریٹنگ میں برقرار رکھا گیا ہے جبکہ آڈٹ بینک کو مستحکم بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے ادائیگیوں میں بہتری آئی اور پالیسی ایکشن نے ملکی معاشی خرابیوں کو دور کیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی معیشت کی بہتری کے حوالے سے عالمی اداروں کی طرف سے جو انکشافات کیے جارہے ہیں‘ وہ خوش آئند ہی نہیں‘ اطمینان بخش بھی ہیں۔ گزشتہ روز عالمی ریٹنگ کے ادارے فچ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ بھی دل خوش کن نظر آتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستانی معاشی خسارے میں کمی ریکارڈ کی گئی اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے‘ کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی کی بڑی وجہ درآمدات میں کمی آئی۔ فنانشیل مینجمنٹ ایکٹ کے ذریعے حکومت نے مالیاتی نظم وضبط کو بھی بہتر بنایا ہے۔ بدقسمتی سے ایسی تمام عالمی اداروں کی رپورٹس اور حکومتی دعوئوں کے باوجود مہنگائی کا جن قابو سے باہر نظر آرہا ہے۔
گزشتہ ہفتہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی 8 سال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی جبکہ جی ڈی پی کی چار فی صد نمو کا ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکے گا‘ اس طرح کی مایوس کن خبریں عالمی اداروں کی رپورٹوں کی نفی کرتی نظر آتی ہیں جبکہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے فلور پر حکومتی ارکان بھی مہنگائی کے بڑھنے کا برملا اعتراف کرچکے ہیں۔ اگر عالمی اداروں کی رپورٹوں اور حکومتی دعوئوں پر یقین کرلیا جائے تو پھر ملک میں مہنگائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ عام آدمی اسی طرح مشکلات کا شکار ہے بلکہ اس کی مشکلات میں آئے روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ کبھی بجلی و گیس اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے اسے زندہ درگور کیا جارہا ہے۔ اگر عالمی رپورٹوں اور حکومتی دعوئوں کے بقول معیشت سنبھل چکی ہے اور خسارے بھی کم ہوچکے ہیں تو پھر عام آدمی کو ریلیف سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ تو عوام کو جنوری میں مہنگائی میں کمی اور عام آدمی کو ریلیف دینے کی نوید سناچکے ہیں۔ ان سب کے باوجود مہنگائی میں کمی نہیں آرہی۔ عام آدمی کی مشکلات اسی طرح موجود ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹوں اور دعوئوں سے عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے اگر معیشت واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے تو حکومت کو بہرصورت فی الفور عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیجانب سے سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا عندیہ بھی خوش آئند ہے۔ سرمایہ کاروں کو بہتر سہولتیں میسر ہوںگی تو ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی جس سے ترقی کی راہیں کھلیں گی اور بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری اور سرمایہ کاروں کو مطمئن کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ موجودہ حکومت نے نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے جس کے مطابق 50 لاکھ افرادکو گھر دیے جائیں گے۔ اس اقدام سے 1970ء کے انتخابی معرکے کا ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ یاد آتا ہے۔ گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے سرکاری رپورٹ کے مطابق 20 لاکھ شہریوں نے گھر کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں جن میں سے دس لاکھ لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں جبکہ چھ لاکھ خاندان مشترکہ گھروں میں رہائش پزیر ہیں۔ دو لاکھ افراد کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ ہائوسنگ اسکیم اگر پورے عزم اور جذبے کے ساتھ شروع کر دی جائے تو اس سے پاکستان میں کاروباری حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ہائوسنگ اسکیم کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں اور اس کی کارکردگی کے بارے میں ماہانہ رپورٹ حاصل کریں تاکہ یہ منصوبہ تاخیر کا شکار نہ ہونے پائے۔
پاکستان کے معاشی ماہرین کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان کوئی نہ کوئی ہُنر سیکھ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکیں۔ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں ہنرمند نوجوان پروگرام شروع کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ اس پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے گا تاکہ وہ ان مواقع سے فائدہ اُٹھا سکیں جن کے امکانات سی پیک کی وجہ سے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان اگر ہنر مند ہوں گے تو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی بیرونی کمپنیوں کو پاکستان کے اندر ہی ہنرمند لیبر میسر آ سکے گی اور انہیں دوسرے ملکوں کی جانب رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔ اس صورت حال پر بس اتنا ہی کہنا ہے کہ کاش یہ کام سی ڈی اے خود کرتا تو آج اسلام آباد میں رہائشوں کا مسئلہ نہ ہوتا۔