“مجھے خوشی ہے کہ میری آنکھ پہلے جنت میں پہنچ گئی”

709

غاصب اسرائیلی فوج نے وکٹری کا نشان بنانے کی پاداش میں فلسطینی دوشیزہ کے چہرے پر گولیاں مار ایک آنکھ ضائع کردی۔

فلسطینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ غزہ کی پٹی کے مشرق میں منعقدہ احتجاج کے دوران وکٹری کا نشان بنانے کی پاداش میں صیہونی فوج کے درندوں نے فلسطینی دوشیزہ کو چہرے پرگولیاں مار کر شدید زخمی کردیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک مکمل طور پر ضائع ہوگئی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 23 سالہ فلسطینی دوشیزہ می ابو رویضہ کا کہنا تھا کہ ہم لبریج پناہ گزین کیمپ کے قریب مظاہرے میں شریک تھے کہ میں نے اسرائیلی فوجیوں کو دیکھ پر وکٹری کا نشان جس کے جواب میں درندہ صفت صیہونیوں نے مجھ پر شیل فائر کردیا جو میرے چہرے پر لگا۔متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ اچانک میری آنکھ پر کوئی زور دار چیز لگی جس کے بعد میری آنکھ سے خون کا فوارہ بہنے لگا اور میں نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین ہر گر گئی۔

می ابو رویضہ کا کہنا تھا کہ وہ قابض فوجیوں سے کافی فاصلے پر تھی اور اس نے گلے میں فلسطینی ثقافت کی علامت کافیہ (گلوبند) ڈالا ہوا تھا۔ مجھے صرف اس جرم میں نشانہ بنایا کہ میں نے وکٹری کا نشان بنایا اور گلے میں کافیہ ڈالا۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے شدید زخمی حالت میں قریبی اسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹرز نے مجھے طبی امداد فراہم کرنے کے غزہ کی النصر کالونی میں واقع آنکھوں کے اسپتال بھیج دیا جہاں ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میری دائیں آنکھ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔گھر پہنچنے کے بعد فیس بک پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں می کا کہنا تھا کہ مجھے اپنی دائیں آنکھ کے ضائع ہونے کا دکھ ہے مگر اس بات کی خوشی بھی ہے کہ میرے جسم کا کوئی حصہ شہید ہونے کے بعد جنت میں پہنچ گیا ہے۔ میری آنکھ مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ گئی ہے۔