مہنگائی بیروزگاری اور سودی لین دین کیخلاف سراج الحق کی قرارداد

712

اسلام آباد (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور سودپر قرضوں کے لین دین میں اضافے کے خلاف قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی ہے۔قرارداد وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے مہنگائی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ کے تناظر میں جمع کرائی گئی ہے۔قرارداد میں ایوان بالا کے ذریعے وفاقی حکومت سے 13 مطالبات کیے گئے ہیں۔پہلے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دینے اور اْسے مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل سے نکالنے کے لیے وفاقی حکومت فی الفور مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے واضح روڈ میپ اور پلان آف ایکشن کا اعلان کرے اور بلاتاخیر بنیادی ضروریاتِ زندگی، بالخصوص روزمرہ کھانے پینے کی اشیا، ادویات کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں قابل ذکر کمی لاکر انہیں عام آدمی کی قوتِ خرید کے مطابق بنایا جائے۔دوسرے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ بجلی اور گیس صارفین سے وصول کیے جانے والے ظالمانہ، بلاجواز اور غیرمنصفانہ ٹیکسز کا فی الفور اور بلاتاخیر خاتمہ کیا جائے۔ عام صارفین سے بلوں میں نیلم-جہلم سمیت دیگر تمام غیرضروری ٹیکسز کی وصولی کا خاتمہ کیا جائے۔تیسرا مطالبہ ہے کہ عام دکاندار، ریڑھی بان، چھوٹے تاجر و کاروباری حضرات کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اْن پر آئے روز نئے نئے ٹیکسز کی بھرمار کرکے اْنہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی فی الفور بند کیا جائے۔ چوتھا مطالبہ ہے کہ خود مشیر خزانہ اعتراف کر چکے کہ سْود کی ادائیگی کو نکال دیا جائے تو مالی خسارہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ اور اْس کے رسولؐ سے جنگ پر مبنی سْودی نظام ہی ملک میں معاشی بحران کی اصل وجہ اور محرک ہے۔ لہٰذا مالی خسارے سے نکلنے اور ملکی معیشت کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بلاتاخیر سْودی نظام کے خاتمے کا اعلان کرے، تاکہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی دعویدار حکومت حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ کے قیام کی طرف پیش قدمی کرسکے۔پانچویں مطالبہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 5 مرتبہ ظالمانہ اضافہ غریب اور مفلوک الحال مریضوں کے ساتھ ظلم در ظلم کے مترادف ہے۔ اس لیے یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں غیرضروری اضافہ فوری واپس لیا جائے اور عوام کو علاج معالجے کی بلامعاوضہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔چھٹا مطالبہ ہے کہ کرپشن، رشوت، بدعنوانی، اقرباپرو ری جیسے ناسور کا خاتمہ کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان تمام معاشرتی برائیوں کے انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پرخاتمے کے لیے جامع اور قابل عمل اقدامات اْٹھائے جائیں۔ساتواں مطالبہ ہے کہ اچھی طرزِ حکمرانی (گڈ گورننس) کے بغیر کوئی حکومت اپنے اہداف کو حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں اچھی طرزِ حکمرانی کے لیے حکومت تمام طبقات کیساتھ، خواہ وہ حکومتی سطح کے ادارے ہوں یا نجی طبقات، کیساتھ بہتر حکومتی روابط کی ذریعے ملک میں جاری بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ملکی تعمیر و ترقی کے پیش نظر حکومت ترجیحی بنیاد پر گزشتہ 14 ماہ سے حکومتی ناروا پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج اساتذہ کرام، ڈاکٹرز، تاجر برادری، چھوٹے دکاندار، صنعت کار اور عوام الناس سے تعلق رکھنے والے دیگر تمام طبقات کے جائز مطالبات بِلاتاخیر حل کیے جائیں۔آٹھویں مطالبہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف، ورلڈبینک وغیرہ) سے سْود پر قرض لینے کی پالیسی ختم کی جائے۔ متبادل کے طور پر بوقت ضرورت اسلامی بینکاری کے اصولوں پر کام کرنے والے مالیاتی اداروں،بینکوں سے قرض اور دیگر اقسام کے لین دین کو فروغ دیا جائے۔نواں مطالبہ ہے کہ بیروزگاری کے خاتمے کا واحد حل ملک کے اندر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔ اس لیے ہر ضلعے میں ایک صنعتی زون قائم کیا جائے،تاکہ مقامی باشندے، بالخصوص دیہی اور کم ترقی یافتہ دْور دراز کے علاقوں کے عوام روزگار کے حصول کے لیے شہری علاقوں کا رْخ کرنے یا بیرونِ ملک ملازمت اختیار کرنے کے بجائے اپنے علاقے میں ہی روزگار حاصل کرکے اپنے اور اپنے خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ساتھ ملکی تعمیر و ترقی میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکیں۔دسواں مطالبہ ہے کہ ملکی برآمدات کے فروغ اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں میں مقیم کمرشل اتاشیوں کو ٹاسک دیے جائیں، غیرضروری پابندیوں اور ناروا ٹیکسز سے آزادایکسپورٹ پالیسی بنائی جائے تاکہ ملکی سطح پر تیار ہونے والی اشیا(بالخصوص چھوٹی صنعتوں کی اشیا) کی بیرونِ ملک منڈیوں میں فروخت میں حائل مشکلات اور رْکاوٹیں دور ہوسکیں۔بیرونِ ملک نیک نامی کی غرض سے اشیاکے معیار اور مقدار پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔گیارہواں مطالبہ ہے کہ کسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے زرعی مداخل پر عاید تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے سبسڈی دی جائے۔ نیز زرعی پیداوار کی قیمتوں کا تعین پیداوار پر اْٹھنے والے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب منافع کے ساتھ کیا جائے۔ بارہواں مطالبہ ہے کہ یتیموں،بیواؤں اور معذور افراد کو مہنگائی اور بیروزگاری کی شدت سے بچانے کے لیے قومی سطح پر فوری ریلیف اور رعایتی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔تیرہواں مطالبہ ہے کہ اداروں کو ختم کرنے سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے اور ملک میں بیروزگاری کا ایک سیلاب آئے گا۔ لہٰذا وفاقی حکومت اداروں کو ختم کرنے کے بجائے گڈ گورنس کے ذریعے ملکی ترقی میں ان اداروں اور افراد سے کردار ادا کرنے کے لیے پالیسی بنائے اور لاکھوں لوگوں کو بیروزگارنہ کرنے کا فوری طورپر اعلان کرے۔