نیب سیاست کے بجائے احتساب کرے،پاناما کے ملزمان بااثرہیں، سراج الحق

230
باجوڑ: امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق قبائلی جرگے سے خطاب کررہے ہیں

باجوڑ( نمائندہ خصوصی)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں شامل پاناما کے ملزمان کا احتساب اس لیے نہیں ہورہا کہ وہ بااثر لو گ ہیں،نیب کو سیاست کے بجائے احتساب کرنا چاہیے۔حکومت اور اپوزیشن نے شفاف الیکشن آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی خود مختاری پر مکالمہ شروع نہ کیا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔موجودہ حکومت بھی سابق حکومتوں کی غلط پالیسیوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے باجوڑ میں قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید و دیگر بھی موجود تھے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک کی سیاست نظام کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔بااثر سیاسی شخصیات خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتی ہیںاس لیے بڑے بڑے مگر مچھ احتساب کے شکنجے میں نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے قربانیاں ہمیشہ غریبوں نے دی ہیں اور امیروں نے ان کا پھل کھایا ہے۔عوام دینے والے اور حکمران ہڑپ کرنے والے ہیں۔ا س فرسودہ سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے اور اس کی جڑیں کاٹنے کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نوجوان قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملکی تاریخ میں اتنی جلدی کوئی حکومت غیر مقبول نہیں ہوئی جتنی پی ٹی آئی کی حکومت ہوئی ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عوام کی نفرت اور مایوسی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔حکومت نے سب سے زیادہ مایوس نوجوانوں کو کیا ہے ۔اب یہی نوجوان حکمرانوں کے سارے حساب بے باق کریں گے۔انہوں نے کہا کہ بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام صبح و شام حکومت کو کوستے سنائی دیتے ہیں مگر عوام کی چیخیں اور دہائی حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں کررہی۔لگتا ہے حکمران اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں جنہیں کچھ سنائی اور دکھائی نہیں دے رہا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومتی حلقوں میں بھی ایک بے چینی دکھائی دے رہی ہے۔اس بے چینی کا واحد علاج اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے اور ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے میں ہے۔حکومت کو آئین کی بالادستی ،قانون کی حاکمیت اور کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔اگر حکومت واقعی احتساب کے نظام کو مؤثر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرناہوگا۔