روزانہ400 انسانوں کو موت کی نیند سلانے والاخاموش قاتل جس سے بچنا باآسانی ممکن ہے، لیکن۔۔۔۔۔۔۔

390

تمباکو نوشی ، فضائی آلودگی اور بلڈ پریشر پر قابو پاناہوگا۔ملک کے تمام ہسپتالوں میں تربیت یافتہ عملہ کے ساتھ اسٹروک یونٹس اور بحالی یونٹس کا قیام ناگزیر ہے
فالج کے مریضوں کو بچانے کے لیے ٹی پی اے کو لائسنس یافتہ بنا کر آسان دستیابی ضروری ہے،نارف اور جسارت کے تحت فالج کے حوالے سے خصوصی نشست میں ماہرین کا اظہار خیال
ڈاکٹر محمد واسع، ڈاکٹر عارف ہریکر، ڈاکٹر سید احمد آصف، ڈاکٹر نبیلہ سومرو، ڈاکٹر روی شنکر، ڈاکٹر ظفر فاطمی اور ڈاکٹر سومرو کے ساتھ فالج کے موضوع پر خصوصی نشست کا احوال

بے شک انسان فانی ہے اور ایک روز ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے لیکن اس زندگی کی جب تک میسر ہے قدر کرنا ، اس کی حفاظت کرنا اور اسے خالق کے مقصد کے مطابق گزارنا نہایت اہم ہے۔اس زندگی کی حفاظت اور اس کو معذوری و محتاجی سے بچانا خود انسان کے ہاتھ میں ہے۔ہر سال مختلف بیماریوں کے حوالے سے دن آتے ہیں اور ان کے ذریعہ عوام کو یہی بات باور کرائی جاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی بہتر گزار سکتے ہیں۔روزنامہ جسارت اور نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام عالمی یوم فالج کے حوالے سے عوامی آگہی کے سلسلے میں ایک خوبصورت نشست مقامی ہوٹل میں منعقد کی گئی۔اس نشست میںفالج اور اس کے علاج و بحالی سے متعلق ماہرین و ڈاکٹرز کو دعوت دی گئی تھی ، عوام کے ساتھ جنرل پریکٹیشنر (ڈاکٹرز) کے ساتھ صحافی حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھاتاکہ وہ بھی اس اہم گفتگو سے استفادہ کرسکیں۔انسانی جسم میں دماغ نہایت کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔معروف نیورو فزیشن ڈاکٹر احمد آصف نے اس نشست کو بحسن و خوبی کنڈکٹ کیا اور شرکاء کوموثر انداز سے فالج کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر آگہی فراہم کی گئی۔اس نشست کے ذریعہ اجاگر کیے جانے والے مختلف اہم پہلوؤں کو مہمان ڈاکٹرز کی گفتگو کی روشنی میں قارئین کی نذر کر رہے ہیںتاکہ اس دن کی مناسبت سے زیادہ سے زیادہ آگہی فروغ پا سکے۔
پروفیسرڈاکٹرمحمد واسع
(صدر شعبہ نیورولوجی ، آغا خان یونیورسٹی ہسپتال )

پاکستان میں فالج کی علامتوں پر آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو جنرل فزیشن ہیں ان کو بھی اتنی معلومات نہیں ۔ میڈیکل کالجز و جامعات میں پاس آؤٹ ہونے والوں کے پاس بھی اس کے علاج کی مکمل معلومات نہیں ہوتیں۔اس حوالے سے ہم نے سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ۸۸ فیصد ڈاکٹرز ایسے ہیں جو صرف فالج کی ایک ہی نشانی جانتے ہیں ۔اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے اور ڈاکٹرز میں آگہی بڑھانے کے لیے نارف سوسائٹی مستقل بہت سارے کام کر رہی ہے ۔ڈاکٹرز کے لیے ٹریننگ کے علاوہ گائڈ لائن بھی تیار کی ہیں۔پاکستان میں اس حوالے سے ریسرچ بھی ہو رہی ہے اس میں ہم ملک کے چالیس سنٹرز سے ڈیٹا جمع کر کے ملک میں فالج کے مریضوں کی معلومات لے کر اس حوالے سے علاج میں اور ریکوری میں بہتری کے سلسلے میں اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ان سب سے امید ہے مریضوں کے علاج اور نگہداشت میں بہتری آئیگی۔جو تجاویز ہم اس ضمن میں اہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان کے تمام ہسپتالوں میں ہر ڈسٹرکٹ کی سطح پر فالج کا یونٹ ہونا چاہیے۔یہ بہت آسان ہے کوئی راکٹ سائنس نہیں۔اس میں ہر سطح کی حکومت کے ساتھ ہماری سوسائٹی مکمل تعاون کرنے کو تیار ہے۔ فالج کے ری ہیب (بحالی)یونٹس بھی موجود نہیں ، ہم ری ہیب کے لوگوں کے ساتھ ملکر پاکستان میں کام کر ر ہے ہیں تاکہ پاکستان کے ہر ہسپتال میں اسپیچ تھراپی، فزیکل تھراپی، آکیوپیشنل تھراپی، جیسی سہولیات پہنچ سکیں۔ اس کے لیے ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ قومی ٹاسک فورس قائم کی جائے جس میں سب کو شامل کیا جائے۔پاکستان میں نیورولوجسٹ کم ہیں ، اس کے لیے میڈیا، حکومتی مشینری کو ساتھ ملانا ہوگا ۔200 نیورولوجسٹ کافی نہیں ہیں ملک سے فالج کے مریضوں کے لیے ، خصوصاً جبکہ یہ انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کی تیزی کو روکنے کے لیے ہم سب کو دو چیزوں پر شدت سے مہم چلانی ہوگی، جس میںنمبر ایک تمباکو نوشی کا استعمال ختم کرنا اور دوسرا بلڈ پریشر کی چیکنگ لازمی ۔یہ اسکریننگ مفت ہو ہر سطح پر اٹھارہ سال سے بڑے بندے کا لازمی چیک ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں، نوکری کے لیے ، ہر جگہ ۔اسی طرح فالج کی اہم دوا ٹی پی اے کی دستیابی لازمی کی جائے ۔ کئی ہزار انسانوں کی زندگی بچ سکتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر کا اس مہم میںبڑا حصہ ہو سکتا ہے ۔جنہیں ہم تربیت دے سکتے ہیں جو اس حوالے سے گاؤں دیہات میں اچھا کام کر سکتی ہیں۔ جان لیں کہ اس وقت روزانہ ایک ہزار لوگ فالج کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے ، چار سو لوگ روز مر رہے ہیں۔ یہ سب ایک بیماری کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کو کنڑول کیا جا سکتا ہے ۔ڈینگی کے کیس میں موت کا ریٹ انتہائی کم ہے فالج کے مقابلے میں ، لیکن آپ دیکھ لیں کہ لوگوں کو کس کا زیادہ مواد ہیڈ لائن سے ملتا ہے ۔ورلڈ اسٹروک ڈے پر اس حوالے سے اویئر نیس پر لیکچر رکھنے کا مقصد ابلاغی و آگہی مہم کا ایک حصہ ہے۔
ڈاکٹر روی شنکر
ساؤتھ سٹی ہسپتال
کنسلٹنٹ، اسٹروک اسپیشلسٹ
ایکیوٹ مینجمنٹ آف اسٹروک

میرا موضوع ویسے تو ڈاکٹرز اور ان پریکٹیشنرسے متعلق ہے جن کے پاس ہسپتال میں مریض پہنچتا ہے ۔فالج کے اٹیک کے وقت 1.2بلین نیورونز ضائع ہوتے ہیںاس کے بعد یہ ہر ایک سیکنڈ میں32000نیورونز ضائع ہوتے رہتے ہیں۔اس لیے ان کے پاس کم ترین وقت میں فالج کے مریض کو کیسے ہینڈل کرنا ہے اس پر کچھ گائڈ لائن میں اپنی گفتگو میں دونگا۔اس بیماری میں وقت بہت اہمیت رکھتا ہے اسلیے جتنا جلدی ہو سکے ہسپتال پہنچیں۔پہلے پانچ منٹ میں مریض کی ہسٹری بن جانی چاہیے۔کنفرم کریں کہ اسٹروک ہوا ہے یا برین ہیمبرج ہوا ہے ۔ اس کا تعین سی ٹی اسکین سے ہوتا ہے ، اسکے بعد فیصلہ کرکے علاج شروع کریں۔ ترجیح یہ ہو کہ پہلے گھنٹے میں ٹریٹمنٹ شروع ہوجائے۔ اس دوران سیمپلنگ ضرور لے لیں ، وقت کا بہترین استعمال مریض کو بچا سکتا ہے۔فالج کی علامات میں بیلنس پرابلم، آنکھوں کی بصارت کا کم یا کھو جانا، فیشل ویک نیس ، سر درد،بازو ٹانگوں کا کمزور پڑ جاناشامل ہیں۔مریض کو ظاہر ہونے والی علامات اہم ہیں جن کا بغور جائزہ لیں۔ہسٹری بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ ماضی میں مریض کو سر پر چوٹ، یا اس طرح کے دورے پہلے تو نہیں رہے، بلڈ پریشر، شوگر سب کو چیک کرلیں۔اس کے حوالے سے NIHSSکے نام سے آن لائن کورس بھی موجود ہے جو کہ باقاعدہ سند بھی دیتا ہے ۔سی ٹی اسکین چونکہ جلدی ہو جاتا ہے جبکہ ایم آر آئی میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے ۔یہ جاننے کے لیے کہ ہیمبرج ہے یا فالج اس ٹیسٹ کے یہ 10منٹ انتہائی اہم ہیں۔ ریڈیولوجسٹ یا نیورولوجسٹ کو رپورٹ دکھا کر فوری طور پر اگلے مرحلے کے لیے ہدایات لیں تاکہ ٹی پی اے کا فیصلہ ہو سکے۔اس دوائی سے ہونے والے اثرات کو فیملی سے ڈسکس کر کے شروع کریں، ٹیوب وغیرہ بے شک پہلے لگا دیں۔مریض کی گھر پر لی جانے والی ادویات کی معلومات بھی لے لیں۔فیملی سے کنسنٹ فارم بھی بھروا لیں ۔اس دوائی کو دینے سے یا دینے کے بعد ۶ فیصد چانس برین ہیمبرج کے ہوتے ہیں یہ بات گھر والوں کو پہلے بتا دیں۔مختلف تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۳۰ فیصد مریض تین مہینے میں اس دوا سے ریکور بھی ہوئے ہیں ۔اس حوالے سے فیملی کا مکمل آگاہ ہونا ضروری ہے۔دوا دینے کی پہلی ڈوز کے بعد پہلے گھنٹے میں مریض کی کیفیت کی بھر پور نگہداشت اور مانیٹرنگ ضروری ہے ۔۲۴ گھنٹے بعد مریض کا دوبارہ سی ٹی اسکین اور ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ٹی پی اے دینے کے بعد اسٹروک یونٹ میں منتقل کریں ، اسپیچ تھرپسٹ کا معائنہ ضروری ہے ۔یاد رہے کہ اگلے ۲۴ گھنٹے میں کوئی اینٹی پلیٹلیٹس ادویہ نہیں دینی ۔ عمومی طور ہر ہم نے دیکھا کہ چالیس سے ساٹھ سال کے درمیان کے مریضوں کو یہ اٹیک ہوتا ہے ۔ جیسے ہی یہ اٹیک ہو میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے ہسپتال پہنچانا چاہیے۔ہسپتال میں دیر سے پہنچنا طویل معذوری کو دعوت دینا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ظفر فاطمی
Environmental and Occupational
Health & Injuries
Department of Community
Health Sciences
Aga Khan University

ماحولیات اور فالج کے موضوع پرگفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ظفر فاطمی نے کہاکہ فضائی آلودگی درحقیقیت فالج کا سب سے بڑا رسک فیکٹر بن چکا ہے۔یہ بنیادی طور پر صنعتوں، عمارتوں اور گاڑیوں سے پھیلتاہے، اس کے علاوہ جو ہم کھاتے پیتے ہیں یعنی ریسٹورنٹ کلچروہ بھی کس طرح سے ماحولیات پراثر انداز ہو تاہے یہ جاننا بھی ضروری ہے ۔دنیا بھرمیں 15ملین لوگ ہر سال فالج میں مبتلا ہوتے ہیں ان میں ۶ ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور پانچ ملین معذوری کی زندگی گزارتے ہیں۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 90فیصد فالج کی وجوہات وہ ہیں جنہیں قبل از وقت قابو کیا جا سکتا ہے۔ان میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنا نہایت اہم ہے۔یہ جو کچھ اطراف میں جلایا جاتا ہے جو کہ آپ کے باورچی خانے سے شروع ہوتا ہے اور سگریٹ ، کچرا ، ماحولیات و دیگر تک جاتا ہے یہ سب فضائی آلودگی بڑھانے کا سبب ہیں۔اس میں جو خطرناک گیسیں شمال ہوتی ہیں ان میں کاربن مونو آکسائڈ، لیڈ، نائٹروجن آکسائڈ، اوزون، سلفر آکسائڈاور ہوا میں موجود ایسے مائیکروذرات ہوتے ہیں جو خون میں شامل ہو کر لائنوں کو بلاک کرتے ہیں۔ 2.5مائیکرون سے کم کے بھی ذرات ہوتے ہیں جو کہ ہمارے پھیپڑوں سے ہوتے ہوئے خون تک جاتے ہیں ۔یہ سب پاور جنریشن انڈسٹری، عمارتیں، گاڑیوں، گھروں،فیول سپلائی سے پیدا ہوتے ہیں۔سب سے بڑا حصہ عمارتوں سے آتا ہے۔فریج، مائیکرو ویو ، ایئر کنڈیشنر سب جلتے ہیںاور فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔افریقہ میں عمارتوں کی زیادتی سب سے زیادہ ہے اس لیے وہی سب سے بڑا ماحولیاتی آلودگی کا مرکز جانا جاتا ہے۔عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کی 23فیصد اموات کی وجوہات ماحولیاتی آلودگی ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں میں فالج زدگان کی تعداد سب سے زیادہ پائی گئی ۔اس کا ایک اثر یہ بھی نکلتا ہے کہ ہمارے بچے 25%کم وزن سے پیدا ہو رہے ہیں ۔کراچی اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا اہم مرکز ہے۔تبت سینٹر کی چھت پر ایک مشین لگا کر تجربہ کیا کہ 45 دنوں میںتو پتہ چلا کہ ہوا میں بدترین ذرات کا تناسب اسٹینڈرڈ سے کہیں زیادہ ہے ۔اس کی بنیاد پر ہم نے کچھ ریسرچ مقالے لکھے۔دوسری جانب مستقل مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہی پایا۔اب اس پر قابو کی بات کرلیں تو اس میں ہمارے رویوں کا اہم کردار ہے۔جان لیں جتنے زیادہ کپڑے تعداد میں ہم پہنیں گے اتنا زیادہ صنعت بڑھے گی، آلودگی بڑھے گی ، قمیض کے اوپر ایک بو یا ٹائی کتنا فضائی آلودگی بڑھانے کا سبب بنتی ہے آپ سوچ نہیں سکتے۔اسی طرح انواع اقسام کے کھانوں کا بھی یہی حال ہے ۔کراچی کے بڑے بڑے ریسٹورانٹ میں ہم نے کھانا کھایا اور ماحولیاتی آلودگی کو ناپا تو حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ باہر کے مقابلے میں بڑے ریسٹورانٹ ماحولیاتی آلودگی کے زیادہ بڑے مراکز تھے۔اس کے ساتھ ساتھ فیول کوالٹی ، گاڑی کی کوالٹی کو بھی بہتر رکھنے سے فرق پڑتا ہے۔گاڑیوں کا کم سے کم استعمال ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گا۔
ڈاکٹر سید احمد آصف
ہیڈ آف نیورولوجی ، لیاقت نیشنل ہسپتال

اللہ فرماتا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اس آگ سے بچاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی سنت بھی یہی ہے کہ وہ ہمیں سب کچھ بتاتا ہے پھر کہتا ہے کہ بچاؤ۔ اسی طرح نبی پاک ﷺ نے بھی یہ فرمایا کہ بیمار ہونے سے پہلے صحت کو غنیمت جانو۔فالج کی بدترین کیفیت کا اندازہ اس سے کریں کہ یہ معذوری انسان کو کس حد تک بے بس کر دیتی ہے کہ وہ جو کچھ بولنا چاہے وہ بول بھی نہیں پاتا۔ (بقیہ 1صفحہ 7)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم آگہی کے اس سفر میں لوگوں کو ساتھ ملائیں اور کئی انسانی جانوں کو بچائیں۔اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق ہر چار میں سے ایک کو یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے۔چہرے میں کمزوری، ہاتھ یا پاؤں میں کمزوری، بات چیت میں مشکل دیکھیں تو فوری طور پرہسپتال کا رخ کریں۔جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی سے وہ لوتھڑا بن کر دماغ کوجانے والی وین میں خون کو بلاک کر دیتا ہے ۔کچھ رسک فیکٹر ایسے ہیں جس میں آپ کچھ نہیں کر سکتے مثلاً:عمر۔ جنس۔ نسل لیکن ہائی بلڈ پریشر، شوگر، تمباکو نوشی، فضائی آلودگی جیسے عوامل سخت الارمنگ ہیںاور قابل کنٹرول ہیں۔ابتدائی بچاؤ کے لیے غذا میں سے نمک کم کریں۔ہائی کولیسٹرول غذائیں کم کریں۔بلڈ شوگر کم کریں۔ سبزی پھل کا استعمال بڑھائیں۔ تمباکو نوشی ختم کریںاور لائف اسٹائل میں تبدیلی لائیں۔ہمارے پاکستان کے اندر بہت طرح کے تمباکو استعمال ہوتے ہیں جن کو لوگ تمباکو سمجھتے ہی نہیں ہیںجیسے گٹکا گھروں میں استعمال ہوتا ہے بعض پورے پورے گائوں ایسے ہیں کہ جہاں ہر فرد گٹکا استعمال کرتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تمباکوان کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں طرح طرح کے تمباکو استعمال ہو رہے ہیں جو سب کے سب خطرناک ہیں بشمول نسوار کے۔ ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ نسوار میں تو کوئی نشہ نہیں ہوتا اور اس میں تو کوئی خطرناک چیز نہیں ہے لیکن اصل میں نسوار بھی تمباکو کی ایک قسم ہے کہ جو اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنا سگریٹ اور گٹکا نقصان دہ ہے۔
ڈاکٹر نبیلہ سومرو
ڈائریکٹر، انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیب
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز

ہم اپنے ادارے میں مختلف ری ہیب کے کام کر رہے ہیں جن میں نیورو سے متعلق بیماریوں کا بھی شعبہ ہے۔چھ آٹھ مہینے کے علاج کے بعد مریض معذوری کی حالت میں ہمارے پاس آتا ہے۔پھر ہم ماہرین کی ٹیم کے ساتھ اس کی بحالی کے لیے کام شروع کرتے ہیں ۔مریض آتا ہے تو ہم اس کا ایک فم اسکیل بناتے ہیں تاکہ اس کی بحالی کا جائزہ لے سکیں۔رائٹ اور لیفٹ کے فالج کے مریض کی احتیاطی تدابیر اور علاج یا بحالی کی تدابیر میں فرق ہوگا۔پہلے دن سے ہی مریض کی بحالی کے لیے اس کی پوزیشننگ کا خاص خیال رکھا جائے۔پھر پوزیشن تبدیل کراتے وقت بھی مستقل توجہ اور دھیان ضروری ہوتا ہے ۔ پہلے ہفتہ میں بہت توجہ سے نگہداشت کرنی ہوتی ہے ۔اسی طرح بٹھانے کے لیے بھی اسی طرح پوری توجہ سے مقررہ ہدایات کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔کندھے بہت اہم ہیں ، کندھے کے درد کی شکایت بہت اہم ہوتی ہے۔اس کی درست نگہداشت اور بحالی کے لیے درست پوزیشننگ ہدایات کے مطابق نہایت ضروری ہے۔سادہ پٹی سے یا دوپٹہ سے یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح مریض کو اٹھا کر ٹیبل یا کرسی یا پلنگ پر کیسے منتقل کرنا ہے ۔یہ سب چیزیں اگر توجہ اور ہدایات کے مطابق کر لیاجائے تو مریض کی بحالی جلد ممکن ہوتی ہے۔اسی طرح مریض کی بحالی کے لییکھڑے کرتے ہوئے تواز ن قائم کرنے کی بھی مکمل تربیت مقررہ پیمانوں او رہدایت کے مطابق انجام دینا ہوتاہے۔کئی ایکسر سائز ہوتی ہیں جو اس کو بحالی کی جانب لے کر جا سکتی ہیں۔یہ ایکیوٹ فیز ہے جب وہ ہمارے سنٹر میں آتے ہیں تو ہم ایک مریض پر چالیس منٹ تک وقت دیتے ہیں۔چہرے کے لیے ہمارے اسپیچ تھراپسٹ کام کرتے ہیں اسی طرح چبانے کے لیے بھی الگ تھراپسٹ ہوتے ہیں۔ہر مریض کے کمرے میں پہلے دن سے اس کے پاس کمیونیکیشن بلاکس ہونے چاہیے ، ان کی ضرورت اور سہولت کے مطابق۔اس کے بعد ہم اے ڈی ایل میں لے جا کر عمومی کام کرواتے ہیں تاکہ وہ اپنے بیت الخلاء جانے ، کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے اپنے ذاتی کام کرنے کی ایسی تربیت لیتے ہیں کہ وہ کئی چیزوںمیں محتاجی کے دائرے سے باہر آجاتے ہیں۔اس کے بعد ہم مریض کو سائیکالوجسٹ کے پاس بھیجتے ہیں جو کہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی بیماری یا معذوری کے دوران طاری ہونے والی ڈپریشن کی کیفیت کے حوالے سے اور انہیں مایوسی سے نکالنے کا اہم کام انجام دیتے ہیں۔اس آگہی کو پھیلانے میں اسٹروک ڈے کے موقع پر نارف بھر پو رکام کر رہی ہے ۔اس آگہی کے تین لیول ہیں ، عام عوام، ڈاکٹرز اور سیاست دانوں میں اس کی آگہی انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب ہمارا اشتراک ہو گا تب ہی ہم کچھ بہتری کے اقدامات کر سکیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر عارف ہریکر
بقائی میڈیکل یونیورسٹی

ہمارے پاس اتنے ڈائنامک ینگسٹرز ہیں جنہیں اس فیلڈ میں ویلکم اور حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔آج کے سیشن میں انوائرنمنٹ کا سب سے اہم موضوع تھا جس پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی۔ہم وقت سے پہلے چاہیں تو انسانوں کو مریض بننے سے بچا سکتے ہیں۔میں تو کہتا ہوں کہ ہم بحالی کی جانب یا ہسپتال یابہترین علاج کی طرف جائیں ہی کیوں ؟جب ہمیں وجوہات معلوم ہیں تو کیوں نہ ہم وقت سے پہلے وجوہات کم کرکے بیماری سے ہی بچ جائیں۔مریض بننے سے بچنا آسان ہے تو کیوں کر بڑے علاج کی جانب جائیں۔اس کی آگہی ہمیں عام عوام اور گھر گھر تک پہنچانی ہونگی۔ اس وقت پاکستان میں فالج سے بچاؤ کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو اس کے لیے ہمیں انفرادی اور حکومتی سطح پر بھی اقدامات کرنے ہونگے ۔اپنے شہر میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم فضائی آلودگی سے اپنے شہروں کو بچائیں گے اس لئے کہ فضائی آلودگی نہ صرف دل کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے بلکہ پھیپھڑوںاور دماغ کی بیماریوں کی بھی بڑی وجہ ہے ۔