مسلم ممالک سمیت عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، ماہرین

930

کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسلامی بینکنگ کے ماہرین نے کہا ہے کہ مسلم ممالک سمیت عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔عالمی بینک نے اسلامک بینکنگ پر ایک سیکشن بنا لیا ہے جبکہ آئی ایم ایف اسے بغور دیکھ رہا ہے جبکہ یونائٹڈ نیشن (یو این او) نے اس حوالے سے اسلامی بینکنگ سے وابستہ تحقیقی اداروں سے معلومات طلب کر لی ہیں۔

اس وقت پاکستانی بینکنگ کے شعبے میں اسلامی بینکنگ کا حصہ 15 سے 16 فیصد تک ہے تاہم اگر حکومت نے سرپرستی کی تو آئندہ 10 برسوں میں اس کا حجم 50 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ مسلم دنیا نے اگر اس شعبے میں سنجیدگی سے کام جاری رکھا تو آئندہ 15 برسوں میں دنیا میں اسلامی بینکنگ کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نہیں رہے گا۔

اس وقت دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ کا حجم دو ٹریلین ڈالرز سے زائد ہے۔ ان خیالات اسلامی بینکنگ کے شعبے کے ماہرین نے ہفتے کو ایکسپو سینٹر کراچی میں پاکستان بزنس فورم کے تحت منقدہ تیسرے فیملی ایکسپو اینڈ نیشنلٹیلنٹ ایوارڈ میں ڈسکشن آن ”اسلامک فنانشل لٹریسی“ میں کیا اسلامی بینکنگ کنویشنل سے بہتر ہے کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔پینل ڈسکشن میں مفتی ارشاد احمد اعجاز چیئرمین شریعہ سپروائزری بورڈ،بینک الاسلامی پاکستان لمیٹڈ اور چیئرمین شریعہ ایڈوائزی بورڈ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، میزان بینک کے ایگزیکٹووائس پریزڈنٹ اور سربراہ شریعہ آڈٹ اینڈ ایڈوائزی فرحان الحق عثمانی اور اے اے او آئی ایف آئی کے سیکریٹری جنرل عمر مصطفی انصاری نے خطاب کیا۔

اپنے خطاب میں مفتی ارشاد احمد اعجاز چیئرمین شریعہ سپروائزری بورڈ،بینک الاسلامی پاکستان لمیٹڈ اور چیئرمین شریعہ ایڈوائزی بورڈ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینک اور اسلامی بینک کے مفہوم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: یہ کہنا کہ بینک کا مفہوم سو فیصد غیر اسلامی ہے اور اس کا اسلامی ہونا جائز نہیں یہ دو الگ الگ تصورات ہیں۔

مغرب نے جب بینکنگ کا آغاز کیا توانہوں نے اس حوالے سے جو نظام وضع کیا انہوں مسلم دینا کے لئے پہلے دین اور معیشت کو سیاست سے الگ کیا۔مغرب نے بینکنگ کا سارا نظام سود پر استوار کیا جس کی وجہ سے یہ تصور کر لیا گیا کہ بینک صرف سودی کاروبار ہی کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں سود اور بینک کو لازم و ملزوم قرار دیا جانے لگا تاہم اسلامی بینکنگ کے شعبے میں مسلمانوں نے جب سے کام شروع کیا ہے تو بینکنگ کے نظام کے سودی ہونے کے حوالے سے تصور کو تبدیل کر دیا ہے۔اسلامی بینکنگ نے شریعت کے مطابق غیر سودی کاروبار، تجارت اور شراکت داری، کرائے داری سمیت دیگر میں غیر سودی بینکنگ کا تصور پیش کر کے اسلامی بینکنگ کا ایک نظام متعارف کرا دیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں اسلامی بینکنگ کے حوالے 1930 کی دہائی میں کام کا آغاز ہو گیا تھا تاہم اس حوالے سے 1980 اور 1990 کی دہائی میں بھرپور کام ہوا اور اسلامی بینکنگ نے اپنے پاؤں پر چلنا شروع کر دیا ہے تاہم اس میں مکمل حکومتی سرپرستی اور اصلاحات کے تسلسل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا ”انسٹیٹیوشنل فیز“ چل رہا ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف ادارے بن رہے ہیں بلکہ اسلامی بینکنگ کا باقاعدہ نظام وضع ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک اس شعبے میں سنجیدگی سے توجہ دیں تو آئندہ 10 سے 15 برسوں میں اسلامی بینکنگ کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نہیں رہے گا۔شرکاء ی جانب سے مفتی ارشاد احمد اعجاز پوچھا گیا کہ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا سائز کتنا ہے؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بینکنگ سسٹم میں اسلامی بینکنگ کا حصہ 15 سے 16 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کی کوشش ہے کہ ملک میں اسلامی بینکنگ ترقی کرے۔

ان یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں اسلامی بینکوں کی برانچوں کا سائز چھوٹا ہے جس کا سائز بڑھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے حکومت اور حکومتی ادارے اور مقتدرہ حلقوں، تجارتی اداروں سمیت تمام کاروباری اداروں کو آگے آنا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں اسلامی بینکنگ کے فروغ کے لئے کنوینشنل برانچوں کو اپنی اسلامک بینکنگ کی برانچوں کو بڑھنا ہو گا۔ان کا کہنا تھا پاکستان میں اسلامی بینکنگ کو اس وقت تک کامیاب نہیں کیا جا سکتا جب تک عملی اقدامات اٹھا کر ملک میں اسلامک بینکنگ کا حصہ بڑھا کر اسے 50 فیصد تک نہیں لایا جاتا۔اس حوالے سے حکومت پاکستان کو نہ صرف قانون سازی کرنا ہوگی بلکہ اس شعبہ کی انسٹیٹوشنل سپورٹ اور سرپرستی کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس شعبہ کی سرپرستی حکومتی سطح پر ہو تو پھر پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا حجم 50 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

اس موقع پر میزان بینک کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ و سربراہ شریعہ آڈٹ اینڈ ایڈوائزی فرحان الحق عثمانی کا کہنا تھا کہ اسلامک بینکنگ کا تصور اب مسلمان معاشرے کے لئے قابل قبول ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا بینکنگ حرام ہے یا ہلال اس حوالے سے ہم خود کوئی تحقیق نہیں کرتے جس کی وجہ سے اسلامی بینکنگ کے حوالے سے ہم ابہام کا شکار رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ”چینلائزیشن آف منی“ کا نام بینکنگ ہے اور حلال طریقے سے بھی بینکنگ ہو سکتی ہے اور ہلال پیسہ کمانا جائز ہے۔ اس حوالے سے اسلامی شریعت میں غیر سودی تجارت، کرایہ داری، شراکت داری سمیت دیگر کئی شعبوں میں جائز منافع کمایا جا سکتا ہے۔

اس موقع خطاب کرتے ہوئے”اے اے اوآئی ایف آئی“ کے سیکریٹری جنرل عمر مصطفیٰ انصاری کا کہنا تھا کہ لوگوں کا آپس میں کاروبار کرنا اس وقت جائز ہے جب تک اس میں حرام کا عنصر شامل نہ ہو جائے۔ اصل چیز یہ دیکھنے کی ہے کہ معاملہ ہلال ہے یہ حرام۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم اور غیر مسلم کا فیصلہ نام پر نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ اس کے پس منظر کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔

اسلامک فنانس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کے اسٹینڈرڈ کو 23 ممالک اختیار کر چکے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امت کی سطح پر اسلامک بینکنگ کے تصور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی بینکنگ کے حوالے سے ابتداء میں پاکستان کا کچھ ناکامیاں ہوئیں تاہم اب دنیا اس شعبے میں پاکستان سے سیکھ رہی ہے۔

اسلامی بینکنگ کے شعبے میں پاکستانی علماء اور اسکالرز کا نام دنیا بھر میں نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ملکی نظام کو سود سے پاک ہو اور اس حوالے سے پاکستان میں قابل ذکر کام ہو رہا ہے۔اس حوالے وسطی ایشیائی ریاستوں، متعدد اسلامی ممالک اور یورپی ممالک میں اسلامی بینکنگ پر بات ہو رہی ہے اور یہ بین الااقوامی سطح پر تیزی سے متعارف ہو رہی ہے حتیٰ کہ عالمی بینک نے اسلامی بینکنگ کے حوالے ایک علیحدہ سیکشن بنایا ہے جبکہ آئی ایم ایف اسے بغور دیکھ رہا ہے اور یو این او نے ہم سے اس حوالے سے معلومات مانگی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامک بینکنگ کا نظام ظلم کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے اور اسلامی بینکنگ سود کے حرام پر مبنی نظام کو ہلال میں تبدیل کرنے کا نام ہے۔ عمر مصطفیٰ انصاری سے پوچھا گیا کہ کیا اسلامی بینک میں کوئی شخص اپنی رقم رکھ سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص بے دھڑک اپنی رقم اسلامی بینک می رکھ سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اسلامک بینکنگ کا حجم دو ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور اب مسلم دنیا کو حرام سودی نظام سے نکل کر ہلال نظام کی طرف آنے کا راستہ مل گیا ہے۔ تقریب کے آخر میں امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی سمیت دیگر مہمانوں کو شیلڈز پیش کیں گئی اور انہوں نے خطاب بھی کیا۔