جے یو آئی کیخلاف ملک گیر کریک ڈائون ، مقدمات، گرفتاریاں

749
اٹک: آزادی مارچ روکنے کے لیے اٹک پل پرکنٹینررکھے جارہے ہیں
اٹک: آزادی مارچ روکنے کے لیے اٹک پل پرکنٹینررکھے جارہے ہیں

 

اسلام آباد/کراچی / لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک + خبر ایجنسیاں) ملک کے مختلف شہروںسے جے یو آئی(ف) کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور ان پر مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع،حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف)سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو نظر بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ انہیں جے یو آئی( ف) کی اعلیٰ قیادت بشمول اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو نظر بند ہی کیوں نہ کرنا پڑے جب کہ وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی عاید کردی۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ میں موجود اعلیٰ ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کو 31 اکتوبر کے منصوبہ بند دھرنے سے قبل نظربند کیا
جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق فضل الرحمن کو اکتوبر کے آخری 4 روز ترجیحاً 26 اکتوبر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے کیونکہ 25 اکتوبر کو جمعہ ہوگا اور حکومت جمعہ المبارک سے قبل مولانا کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ اگر انہیں جمعہ سے پہلے نظربند کیا گیا تو جے یو آئی (ف) مساجد کی طاقت استعمال کرسکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنمائوں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کے لیے نظربند کیا جاسکتا ہے جبکہ جماعت کے سرگرم کارکنوں کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتار کیا جاسکتا ہے۔کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے انصار الاسلام پر پابندی کی منظوری دی اور کابینہ ارکان سے تنظیم پر پابندی کی منظوری بذریعہ سرکولیشن لی گئی۔وفاقی حکومت نے آرٹیکل 146 کے تحت وزارت داخلہ کو صوبوں سے مشاورت کا اختیار دے دیا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کی قیادت اور سرگرم کارکنوں کے حراستی کریک ڈائون کے دوران حکمت عملی کے تحت مخصوص علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا اور جزوی طور پنجاب میں موبائل فون سروس معطل کردی جائے گی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں فون سروس 30 اکتوبر کی نصف شب کے بعد معطل کی جائے گی جو 31 اکتوبر کو رات گئے بحال کی جائے گی تاہم انتظامیہ صورتحال کے مطابق اس کا فیصلہ کرے گی۔ علاوہ ازیں آزادی مارچ اور دھرنے سے قبل ہی جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنماؤں کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے ہیں جب کہ کچھ کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔اسلام آباد کی شمس کالونی پولیس نے آزادی مارچ کے بینرز آویزاں کرنے پر 2 کارکن گرفتار کرلیے ہیں۔پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا شفیق الرحمن اور مولانا محمد ارشاد کو گرفتار کرکے ان کے پاس سے بینرز برآمد کیے گئے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد پر الزام ہے کہ یہ لوگوں کو آزادی مارچ میں شرکت پر اکسا رہے تھے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق چند افراد دھرنے کے بینرز بھی لگا رہے تھے جو پولیس کو دیکھ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود انتظامیہ کی رٹ کو چیلنج کیا ہے جب کہ کراچی میں پولیس نے لانڈھی کے رہائشی شہری کاشف نظامی کی مدعیت میں جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنما صابر اشرفی ، حنیف اور سلیم کے خلاف بھتا وصولی کا مقدمہ درج کرایا ہے،مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تینوں ملزمان نے اسلام آباد میں دھرنے کے لیے 50 ہزار روپے کا تقاضا کیا اور نہ دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا کارکن ہے تاہم درخواست پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔واضح رہے کہ آزادی مارچ سے قبل جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے حکم پر 25 ہزار سے زاید شرکاء جڑواں شہروں میں پہنچ چکے ہیں، جنہوں نے عزیز و اقارب کے پاس اور پرائیویٹ رہائش حاصل کررکھی ہے۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں آزاد کشمیر، پنجاب اور بلوچستان سے اضافی پولیس نفری طلب کرلی ہے جنہیں ٹھہرانے کے لیے اسلام آباد کی سرکاری عمارتیں خالی کرانے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اضافی پولیس نفری کو نیشنل لائبریری، اسپورٹس کمپلیکس، کمیونٹی سینٹرز اور اسکولوں میں رہائش دی جائے گی جبکہ وزارت داخلہ نے اسلام آباد انتظامیہ کو نفری کے قیام اور طعام کے لیے فنڈز بھی جاری کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ادھردریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینرز پہنچادیے گئے ہیں اور پْل کو بند کرنے کے لیے وزارت داخلہ کے فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے، پل پر کنٹینرز لگانے کا کام جاری ہے تاہم ٹریفک کے لیے ابھی ایک لین کھلی ہے۔پولیس حکام کے مطابق وزارت داخلہ کا حکم ملتے ہی اٹک پل کو مکمل بند کردیا جائے گا جبکہ آزادی مارچ کے پیش نظر پشاور سے لاہور جی ٹی روڈ بھی بند کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ میں کنٹرول روم بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس سے پنجاب، وفاقی دارالحکومت اور خیبرپختونخوا کو کنٹرول کیا جائے، کنٹرول روم سے پنجاب، خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹریز اور چیف کمشنر اسلام آباد رابطے میں رہیں گے جبکہ تینوں آئی جیز کنٹرول روم کے احکامات پر عمل کریں گے۔علاوہ ازیںجے یو آئی(ف) کے سیکرٹری جنرل سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے پیر کوپریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سے ممکنہ مذاکرات چارٹر آف ڈیمانڈ اور مشترکہ آزادی مارچ کے معاملے پر (آج)منگل کو آل پارٹیز کانفرنس( اے پی سی)طلب کرلی گئی ہے، اے پی سی شام4 بجے چک شہزاد میں سابق وزیرمملکت و(ن) لیگی ر ہنماطارق فضل چودھری کے فارم ہائوس پر ہوگی ۔ سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری نے واضح کیا کہ حکومتی استعفے پر بات چیت کے علاوہ کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ حکومت ہمارے آنے سے پہلے ہی ڈھیر ہو چکی ہے، پہلی مرتبہ شہر اقتدارکو محفوظ کرنے کے نام پر خندق کھودنے کی اطلاعات ہیں،جیسے ہم بھارت سے آرہے ہیں،حکومت کچھ بھی کر لے ہمارے جیالے آئیں گے،یہ تو کہتے تھے جے یو آ ئی (ف) کچھ بھی نہیں، مولانا کی سیاست ختم ہوگئی ہے،ہم دھرنا دیں گے اور اپنی مرضی سے اٹھیں گے،ہمارا احتجاج اور آزادی مارچ پرامن ہے اور رہے گا۔ادھر پیر کی شب اسلام آباد میں اکرم خان درانی کی زیرصدارت رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں(ن) لیگ ، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام ، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، مرکزی جمعیت اہلحدیث، قومی وطن پارٹی ، نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان شریک ہوئے ۔ اجلاس میںچارٹر آف ڈیمانڈ پر مذاکرات کے لیے رہبر کمیٹی کو اختیار دیدیا گیا، مذاکرات کے لیے رہبر کمیٹی کو مکمل طورپر نامزد کیا گیا ہے اور حکومتی ٹیم سے مذاکرات میں تمام 9جماعتوں کے 11ارکان شامل ہوں گے، اپوزیشن جماعتیں مذاکرات کے لیے4نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ تک محدود رہیں گی،مطالبات میں موجودہ حکومت کی بساط لپیٹنے ، وزیراعظم عمران خان کے استعفے، فوری طورپر نئے عام انتخابات بغیر فوج کی نگرانی منعقد کرنے اور اسلامی قوانین کا تحفظ شامل ہے۔رہبرکمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، ممکنہ مذاکرات میں اپوزیشن جماعتیں متذکرہ چارٹر آف ڈیمانڈ تک محدود رہیں گی ، حکومت کی ٹیم اختیار اور اپنی حیثیت کے حوالے سے پوزیشن واضح کرے، بلوچستان یونیورسٹی میں ہاسٹلز کے کمروں اور باتھ رومز میں خفیہ کیمرے لگانے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے۔ اکرم درانی نے احسن اقبال، فرحت اللہ بابر، میاں افتخار اور دیگر ارکان کے ساتھ میڈیا کے استفسار پر حکومت پر واضح کیا کہ آزادی مارچ ہر صورت ہوگا، رکاوٹیں اور رخنہ ڈالنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں جوکہ غیر قانونی اور غیر جمہوری اقدامات ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ حکومت سے رابطے کو مذاکرات کا نام نہ دیا جائے، اے پی سی کے ذریعے مطالبات سے حکومت کو آگاہ کردیا تھا۔
مقدمات،گرفتاریاں