یہی تو دن ہیں

154

مریم شہزاد
ہم اکثر اپنی بیٹیوں کو شادی سے پہلے گھر کے کام کاج نہیں کرنے دیتے، کہ ساری زندگی یہی تو کرنا ہے، ابھی تو پڑھ لیں ،زندگی انجوائے کرلیں۔
لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ آخر ہماری ماؤں نے بھی تو ہم کو سب کام سکھائے تھے، بچپن سے ہی کام کی عادت ڈالی تھی اور اس وقت تو سلائی کڑھائی، بھی گھر میں ہی کی جاتی تھی لڑکیاں فارغ بیٹھی نظر آئیں ایسا تو ممکن ہی نہ تھا جب اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی عمر کے لحاظ سے مختلف کورس کروائے جاتے اور میٹرک کے بعد سلائی سیکھنا تو ضروری ہی تھا چھوٹی عمر سے ہی کچھ نہ کچھ کچن کا کام بھی کروالیا جاتا تھا اور کچھ نہیں تو سبزی ہی بنوانے اپنے ساتھ بٹھالیا اور ساتھ ہی گھر داری کے ٹوٹکے بھی نانی دادی بتاتی جاتی ۔
آج جو ہم اپنے آپ کو انتہائی عقل مند ودانا تصور کرتے ہیں تو وہ ہماری بزرگوں کی تربیت ہے ،ہماری امی ہماری سہیلی بھی ہوتی تھیں اورایک استاد بھی جو ہر دم ہم کو کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش میں لگی رہتی تھی اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو ہم سے محبت نہیں تھی بلکہ یہ ان کی محبت ہی تھی کہ انہوں نے ہم کو مستقبل کی بہترین ماں بنایا مگر ہم جو آج مغرب کی تقلید میں بچوں کے صرف دوست بن بیٹھے ہیں یہ دراصل اپنی بیٹیوں سے محبت نہیں دشمنی کر رہے ہیں ،ہم ان سے کام نہ کروا کر اور آرام کی عادت ڈال رہے ہیں اور یہی بچیاں جب سسرال جاتی ہیں تو کام کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پریشانی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے البتہ جو بچیاں اپنی امی کو بچپن سے گھرداری کرتے دیکھ رہی ہوتی ہیں وہ پھر بھی سیٹ ہوجاتی ہیں مگر کچھ جو یہ سمجھتی ہیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے ان کو اگر بروقت میکے میں سمجھایا نہ جائے تو وہ اپنا گھر خراب کر لیتی ہیں ۔
ایسا وقت آنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے بچیوں کو گھرداری سکھائ جائے یقیناً میری ان باتوں سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو گا مگر ہم یہ بھی تو سوچیں کہ ایک لڑکا بھی شادی سے پہلے ہی سے کاروبار یا جاب شروع کرتا ہے تب وہ شادی کرپاتا ہے اگر ہم اپنے بیٹوں کو یہ ہی کہیں کہ ابھی آرام کرو شادی کے بعد کام کرنا تو کیا کوئ تصور کر سکتا ہے کہ کوئی اپنی بیٹی اُن کو دے گا ۔
جب ہم اپنے بیٹوں کو شادی سے پہلے ہی اس قابل دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی اور پھر بچوں کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو تو پھر ہم کو بیٹیوں کو بھی تربیت دینی ہوگی جب لڑکا اپنی بیوی کو جیب خرچ دیتا ہے، اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو ہنسی خوشی پورا کرتا ہے ،اس کے آرام کا خیال کرتا ہے تو پھر یہ بیوی کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس کو گھر کا سکون اور چین دے تا کہ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ہو ۔