ریفرنس کا مقصد ججوں کو خاموش کرانا ہے، جسٹس فائز، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سبب بنا ، منیر اے ملک

244

 

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میرے خلاف صدارتی ریفرنس کا مقصد ججوں کو خاموش کرانا ہے،الزام لگا کر میری شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔پیرکو صدارتی ریفرنس کے خلاف اپنے جواب الجواب میں انہوں نے کہاکہ اہلخانہ کی ملکیتی جائداد کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، اہلیہ اوربچے میرے زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا بھی علم نہیں، اہلیہ اور بچوں کی زیرملکیت جائداد کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ پہلی جائداد 2004 ء میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ پاکستانی 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں خریدی، دیگر 2 جائدادیں 2013 ء میں بالترتیب 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اور 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدیں، تمام جائدادکی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کی قیمت سے کم ہے۔معزز جج کے جواب کے مطابق کراچی میں 1600 مربع گز کا گھرہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج عدالت عظمیٰ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا
ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دہری شہریت ہے۔جسٹس فائز نے اعتراض اٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی اجازت کا ریکارڈ موجود نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے ناکہ نجی پریکٹس کرے۔معزز جج نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف دائرہ اختیار سے باہر جانے پر کارروائی کا حکم دیا، کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمے داری دیتی، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل تفویض کرنا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل انور منصورخان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں، بطور وفاقی حکومت کی نمائندگی یہ عمل آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اٹارنی جنرل کوکارروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا جس کے لیے وفاق نے انہیں تعینات نہیں کیا تھا،کسی وکیل کو جج کے ساتھ کسی نجی معاملے پر بات چیت یا بحث نہیں کرنی چاہیے، کونسل اور سیکریٹری کے مناسب جواب نا آنے پر الزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔ علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا مقصد اعلیٰ عدلیہ کو دباؤ میں لانا ہے۔انہوں نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مستقبل میں پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے۔منیراے ملک نے کہا کہ اگر عدلیہ اس معاملے پر دباؤ میں آ گئی تو عدلیہ کی آزادی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے فیض آباد دھرنے سے متعلق جو فیصلہ دیا تو اس میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نہ تو سیاسی معاملات میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اس فیصلے کی روشنی میں آئی ایس آئی کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جانا چاہیے تھے۔منیر اے ملک نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق 2 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا جبکہ نظرثانی کی درخواست میں صرف ان کے موکل یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نشانہ بنایا گیا۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس 2 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئی ہیں اس میں بڑی سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس وزیر قانون کی نظر سے ہوکر گزرا ہے جو نہ صرف ڈاکٹر ہیں بلکہ بیرسٹر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صدر کو رائے دے رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے ایک جج کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔بینچ کے سربراہ نے منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں ابھی زیر التوا ہیں لہٰذا وہ اس پر سوچ سمجھ کر رائے دیں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 7ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اب تک نظرثانی کی یہ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں۔بینچ کے سربراہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے کوئی عدالت عظمیٰ پر دباو نہیں ڈال سکتا۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں اتحاد میں شامل ایم کیو ایم نے اپنی نظرثانی کی اپیلوں میں جسٹس قاضی فائز عیسی پر جو الزامات عاید کیے ہیں ان کے سیریل نمبر بھی ایک جیسے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’ویل کوآرڈینیٹڈ‘۔اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کہ ان دونوں اپیلوں کا فونٹ ایک ہی ہے۔ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس کب دائر کیا گا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں7 مارچ کو دائر کی گئیں جبکہ 10 اپریل کو ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔قبل ازیں سماعت شروع ہوئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ لاہور سے آئے ہوئے ایک وکیل اکمل محمود روسٹرم پر آئے اور بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کو اونچی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے بولے اْن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا تھا لہذا جب تک اس ریفرنس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ اس لارجر بینچ کی سربراہی نہیں کرسکتے۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بینچ کے سربراہ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو طلب کیا۔بعد ازاں متعقلہ برانچ سے اس ریفرنس کے بارے میں ریکارڈ طلب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس 2017ء میں ختم ہوچکا ہے۔دوران سماعت بینچ کے دیگر ارکان اس وکیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنا چاہتے تھے تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے ایسا نہیں کیا۔ بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ روسٹرم کا تحفظ ان کی ذمے داری ہے۔عدالتی وقت ختم ہونے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔بعد ازاں لاہور سے آئے وکیل نے عدالت کے باہر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے ساتھ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طرف سے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالالحسن کے خلاف دائر ریفرنس پر پیشرفت سے متعلق انہیں کچھ نہیں بتایا گیا۔