نئے بنارسی ٹھگ!

1279

جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں حادثاتی طور پر مرنے والوں کے لواحقین کو کفن دفن کے لیے بیس ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ بوڑھے پنشن یافتہ جو گریجویٹی کی رقم سے کوئی کاروبار کرنے کے قابل نہ ہوتے تھے نیشنل بینک پنشن کے بعد ملنے والی رقم پر تیرا سو روپے فی لاکھ ہر ماہ دیا کرتا تھا۔ میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی کچھ عرصہ اس اسکیم پر عمل درآمد ہوتا رہا، مگر جب میاں نواز شریف نے وزیراعظم کے بجائے سیاست دان بن کر سوچا تو انہیں یہ خسارے کا سودا دکھائی دیا۔ یوں بوڑھے پنشن یافتہ اور حادثے میں مرنے والے غریب لواحقین ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے سو، موصوف نے یہ دونوں رعایتیں عوام سے چھین لیں پھر۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی اور اب میاں صاحب کی چیخیں ساری دنیا سن رہی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے کہ اقتدار میں آکر وہ ایک نیا پاکستان بنائیں گے، کوئی بے روزگار رہے گا نہ کوئی بے گھر رہے گا۔ پاکستان کو اتنا خوش حال بنائیں گے کہ بیرونی ممالک سے لوگ روزگار کی تلاش میں پاکستان آئیں گے، سرمایہ کاروں کی لائن لگ جائے گی مگر کیا ہوا؟۔ اقتدار کی مسند پر براجمان ہوتے ہی برسرروزگار افراد کو بے روزگار اور گھر کے مالکان کو بے گھر کردیا۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل بنارس کے ٹھگ بہت مشہور تھے ان کے ٹھگنے کے طریقے بہت حیران کن ہوا کرتے تھے، لوگ ان کی عقل و دانش کی داد دینے پر مجبور ہوجاتے تھے مگر عمران خان کی حکومت عوام کو ٹھگنے کے جو طریقے اپنا رہی ہے وہ حیران کن نہیں شرم ناک ہیں۔ لوگ ان کی عقل کا ماتم کررہے ہیں، حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو لوگ تجہیز و تکفین کے قابل نہ رہیں گے۔
گزشتہ دنوں عمران خان کی حکومت نے چالیس ہزار روپے کے پرائز بانڈ پر پابندی لگادی گویا عوام پر ایک اور معاشی بم گرادیا۔ جن کے پاس پرائز بانڈ تھے وہ بینک گئے تو کہا گیا اپنے اکائونٹ میں جمع کرادو، جن کے بینک اکائونٹ تھے انہوں نے اکائونٹ میں جمع کرادیے جن کے بینک اکائونٹ نہیں تھے انہوں نے اکائونٹ کے جھنجھٹ سے بچنے اور شیطانی آنت کی طرح لمبی کارروائی سے گھبرا کر چالیس ہزار والے پرائز بانڈ تیس سے پینتیس ہزار روپے میں فروخت کردیے۔ جنہوں نے اپنے اکائونٹ میں پرائز بانڈ جمع کرائے تھے رقم لینے گئے تو بتایا گیا کہ ایک لاکھ روپے پر تقریباً آٹھ سو روپے کٹوتی ہوگی۔ ایک شخص نے چالیس ہزار روپے والے بانڈ خریدنے کے لیے دو لاکھ روپے اپنے اکائونٹ سے نکلوائے جو اس کی عمر بھر کی کمائی تھے پھر اسے بتایا گیا کہ اٹھارہ سو روپے کی کٹوتی کی گئی ہے گویا! دو لاکھ روپے پر چھبیس سو روپے کٹوتی کے نام پر ادا کرنا پڑے۔
سوال یہ ہے کہ قومی خزانے کے نام پر اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ایسی حرکتیں کیوں کی جارہی ہیں؟ عدلیہ کے چودھری ازخود نوٹس لینے کے بڑے ماہر ہیں مگر اس معاملے میں ان کی مہارت کو کیا ہوا؟ وہ اس لوٹ مار پر کیوں خاموش ہے؟۔ وزیراعظم عمران خان کہیں بھی جائیں اس وظیفے کا ورد کرنا نہیں بھولتے کہ سابق حکومتیں چور تھیں، حکمران ڈاکو اور لٹیرے تھے۔ انہوں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے مگر دنیا جانتی ہے کہ ان کی حکومت عوام کو چاروں ہاتھ پائوں سے لوٹ رہی ہے اور اپنی ایمان داری کا ڈھونڈرا بھی پیٹ رہی ہے۔ اس معاملے میں ہمیں ایک بزرگ کا یہ کہنا سچ ہی لگا کہ جنہوں نے عمران خان کو گلے لگایا ہے اب جان چھڑانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت ان کی ’’انا‘‘ کا مسئلہ بن چکی ہے اور ’’انا‘‘ کی خاطر مقتدر قوت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ پہلے حکومت دے کر چھین لیا کرتی تھی۔ نئے پاکستان میں حکومت لینے کے لیے کوئی نیا طریقہ ہی اختیار کیا جائے گا۔ سیانے کہتے ہیں کامیابی کے لیے دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ شاید اس بار اپنے ہی تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے سو، کسی امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی کھیل میں فائول تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔