اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے دلائل

1395

پاکستان میں ہر پانچ سات سال بعد یہ بحث شروع ’’کرائی‘‘ جاتی ہے کہ ہمیں اب اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اس وقت بھی ملک میں یہ بحث جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہماری اسرائیل کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، دشمنی تو عربوں کی تھی اور اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تیزی کے ساتھ اسرائیل کے قریب آرہے ہیں۔ چناں چہ ہمیں بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہاں ’’چاہیے‘‘ کی بات بھی اضافی ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر میں اسرائیل کے ایک اخبار کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے ہی والا ہے۔ تاہم آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے اس بات کی تردید کی ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی اطلاع کو ’’ہائی برڈ وار‘‘ کا حصہ قرار دیا۔ یہ وضاحت اپنی جگہ اہم ہے اس لیے کہ پاکستان میں کسی بھی ’’پالیسی شِفٹ‘‘ کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ اس سلسلے میں نواز شریف، زرداری یا عمران خان کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن یہاں اصل بات یہ نہیں ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا ہے یا نہیں بلکہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے زیادہ رکیک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے دلائل یہ ہیں۔
اسرائیل دُنیا کی واحد ناجائز ریاست ہے۔ اسرائیل کا قیام کسی سیاسی، عوامی یا جمہوری جدوجہد کا حاصل نہیں، اسرائیل یورپی طاقتوں اور یہودیوں کی ملی بھگت کا حاصل ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ارض فلسطین آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے یہودیوں کی مملکت کا مرکز تھی اور وہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا۔ اس بات کو اگر اسرائیل کے قیام کی دلیل مان لیا جائے تو بھی ہمیں پوری دنیا کی تاریخ کو بدلنا پڑے گا۔ خود ہندو مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان دراوڑوں کا ملک تھا۔ آریہ وسطی ایشیا سے آئے اور انہوں نے آکر دراوڑوں کی حاکمیت کا خاتمہ کرکے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آریائی نسل کے تمام ہندوئوں کو ہندوستان بدر کردینا چاہیے یا کم از کم ان کے ہاتھ سے ہندوستان کا اقتدار چھین کر دراوڑوں یا اُن سے بھی پہلے موجود قبائل کے حوالے کردینا چاہیے۔ اس طرح پورا امریکا ریڈ انڈینز کا ملک تھا۔ سفید فاموں نے آکر 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا اور امریکا پر قبضہ کرلیا۔ چناں چہ یہودی ڈھائی ہزار سال بعد فلسطین کی ملکیت کے حامل ہوسکتے ہیں تو امریکا کے ریڈ انڈینز کو بھی اس بات کا حق ہے کہ وہ امریکا سے تمام سفید فاموں کو نکال باہر کریں اور امریکا میں اپنی مملکت قائم کردیں۔ آسٹریلیا پورا براعظم ہے اور یہ براعظم کبھی ایب اورینجنلز کا ملک تھا۔ یہاں بھی سفید فاموں نے آکر 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو مار ڈالا اور ان کے پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔ فلسطین میں یہودیوں کی ریاست بن سکتی ہے تو آسٹریلیا میں ایب اوریجنلز کی ریاست بھی قائم ہوسکتی ہے۔ چناں چہ پوری دنیا کو مہم چلا کر آسٹریلیا کو سفید فاموں سے پاک کردینا چاہیے یا کم از کم آسٹریلیا کی حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایب اوریجنلز کے حوالے کردینی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر اسرائیل کے ناجائز سیاسی وجود کو بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے ظلم، جبر اور تشدد کو ایک اصول مان کر اس کے آگے سر جھکایا ہے۔ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے تو وہ بھی ظالموں اور جابروں کا ساتھ دیں گے۔ یہ کام ازروئے اسلام ہی نہیں دنیاوی قانون کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہم ترین شخصیتیں دو ہیں۔ اقبال اور قائد اعظم۔ اقبال اسرائیل کی ناجائز پیدائش سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے مگر اسرائیل کے قیام کی سازش کا آغاز اقبال کے زمانے ہی میں ہوگیا تھا۔ چناں چہ اقبال نے ایک خط میں صاف لکھا ہے کہ اگر اسرائیل قائم ہوا تو وہ مشرق وسطیٰ میں مغربی اقوام کی ایک چوکی یا out post کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اتفاق سے اقبال کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ امریکا اور یورپ 75 سال سے اسرائیل اور یہودیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کررہے ہیں۔ قائد اعظم بھی فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کے سخت خلاف تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم فلسطین کے سلسلے میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ اس سلسلے میں ہمیں تشدد یا violence سے کام لینا پڑا تو ہم اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اسرائیل کے سلسلے میں پاکستان کی ’’اوریجنل فکر‘‘ یہی ہے۔ چناں چہ جو حکمران اسرائیل کو تسلیم کرے گا وہ اقبال اور قائد اعظم کی فکر سے غداری کا مرتکب ہوگا۔
اسرائیل اور اس کے مغربی سرپرستوں نے گزشتہ 72 سال میں فلسطینیوں کے ساتھ جو شیطانی سلوک کیا ہے وہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ اسرائیل نے 50 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر جلا وطن کردیا۔ اسرائیل ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے کا رقبہ بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ دہشت گرد اسرائیل ہے مگر وہ مظلوم فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتا ہے۔ یاسر عرفات سیکولر بھی تھے اور اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کرنے والے بھی۔ مگر اسرائیل نے نہ اوسلو امن معاہدے کو چلنے دیا نہ یاسر عرفات کو زندہ رہنے دیا۔ اسرائیل نے یاسر عرفات کو تین سال تک ایک عمارت میں محدود رکھا اور انہیں زہر دے کر مار دیا۔ اس بات کی تصدیق یاسر عرفات کی عیسائی بیوی سوہا عرفات نے بھی کی۔ اسرائیل نے حماس کے دو قائدین شیخ یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو شہید کردیا۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے دو ایجنٹوں نے حماس کے رہنما خالد مشعل کو زہر دیا۔ اتفاق سے ان دونوں ایجنٹوں کو بروقت پکڑ لیا گیا اور اسرائیل کو زہر کا تریاق اور Antidote خالد مشعل کو مہیا کرنا پڑا۔ ایسا نہ ہوتا تو خالد مشعل بھی شہید ہوجاتے۔ اسرائیل کے ظلم کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ اس جیل میں اس نے بجلی اور پانی کی تنصیبات تک کو تباہ کردیا۔ ہمیں یاد ہے کہ پندرہ سال قبل اسرائیلی فوجیوں نے دو سال میں 300 سے زیادہ اسکول جانے والے فلسطینی بچوں کو گولی مار کر ہلاک کیا اور موقف پر اختیار کیا کہ یہ بچے فائرنگ کے تبادلے یا Cross firing میں مارے گئے۔ کیا دنیا میں کبھی دو سال کے دوران 300 بچے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ہیں۔ ویت نام، عراق اور افغانستان میں بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں مگر کبھی دو سال میں 300 بچے متحارب گروہوں کی فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے شعوری طور پر فلسطینی بچوں کو مارا۔ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں بالخصوص غزہ کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور غزہ کی 70 سے 80 فی صد آبادی غربت میں مبتلا ہے۔ اسرائیل کے مظالم کی یہ چند جھلکیاں بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں جو مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کیے ہوئے ہیں یا اسرائیل کو تسلیم کریں گے وہ سرائیل کے مظالم کا جشن منائیں گے اور یہ ایک شیطانی فعل ہوگا۔
ویسے تو دنیا میں بہت سی قوموں کی تاریخ شرمناک ہے مگر یہودیوں کی تاریخ کی شرمناکی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ یہودیوں نے انبیا و مرسلین کو قتل کیا ہے اور ان کے اہل علم نے معمولی دنیاوی مفادات کے لیے آسمانی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ اس وقت بھی یہودی ذہن آسمانی کتب کے پیغام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا خلق کیے ہوئے ہے جس میں صرف 8 لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ ساڑھے تین ارب انسان بھی اتنی دولت کے حامل نہیں۔ یہودی ذہن نے عہد حاضر میں دنیا پرستی کو ایک مذہب بنادیا ہے۔ یہ یہودیوں کی ’’سازش‘‘ نہیں ان کی ’’پالیسی‘‘ ہے۔ ان کا ’’منصوبہ‘‘ ہے جس کا کوئی پہلو بھی راز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دنیا یہودیوں سے پاک کی جائے گی اور اگر کوئی یہودی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر جان بچائے گا تو جھاڑی خود پکارے گی کہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب دنیا میں اسرائیل نام کی ریاست کا کوئی وجود نہ ہوگا۔
خود یہودیوں کے مجرمانہ ذہن میں یہ اندیشہ موجود ہے۔ چناں چہ بعض یہودی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کیا اسرائیل اپنی 100 ویں سالگرہ منا پائے گا؟ تاریخ کا مطاالعہ بتاتا ہے کہ جب قومیں ظلم اور ناانصافی میں ایک حد سے بڑھ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ بلاشبہ اسرائیل نے ظلم و ناانصافی کی ہر حد کو پار کر لیا ہے۔ چناں چہ اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا قرین قیاس نظر آتا ہے۔ بہت سے لوگ ’’حاضر و موجود‘‘ کے زیر اثر ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ حاضر و موجود کا تسلسل برقرار رہے گا۔ مگر نہ نمرود کی خدائی باقی رہی نہ فرعون کی بادشاہت۔ سلطنت روما مٹ گئی اور سوویت یونین کو دنیا نے 20 ویں صدی میں اسی طرح تحلیل ہوتے ہوئے دیکھا جیسے کبھی اس کا وجود نہ تھا۔ اسی طرح ایک دن اسرائیل بھی صفحہ ہستی سے ایسے غائب ہوگا کہ جیسے اسرائیل نام کی ریاست بھی روئے زمین پر موجود نہ تھی۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اسرائیل کی موت دیوار کا لکھا ہے۔