مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج کیوں نہیں؟

514

 

 

مقبوضہ کشمیر اس وقت پوری طرح بھارت کے محاصرے میں ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ ایک ماہ سے دنیا سے کٹے ہوئے ہیں، ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہے، پورے علاقے میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، شیر خوار بچے دودھ کے لیے ترس رہے ہیں، مریضوں کے لیے جان بچانے والی ادویات بھی دستیاب نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلمان پولیس کو غیر مسلح کردیا گیا ہے اور قابض بھارتی فوج کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی دو تین جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں، جب کہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے مسلح غنڈوں کو بسوں میں بھر بھرکر مقبوضہ علاقے میں پہنچایا جارہا ہے جہاں فوج کی حفاظت میں ان کے لیے عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور وہ ان کیمپوں سے رات کی تاریکی میں نکل کر مسلمان بستیوں پر حملہ آور ہورہے ہیں، گھروں سے نوجوان لڑکیوں کو اغوا کیا جارہا ہے۔ حریف قائدین نے کشمیری عوام کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ سروں پر منڈلاتی موت سے خوفزدہ نہ ہوں، کرفیو توڑ کر باہر نکلیں اور بھارتی جارحیت کے خلاف شدید احتجاج کریں، وہ اس بات کا برملا اعلان کریں کہ وہ ہر حال میں آزادی چاہتے ہیں۔ سید علی گیلانی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم مرجائیں گے لیکن اپنے حق آزادی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ چناں چہ اس پیغام کی روشنی میں پورا مقبوضہ کشمیر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان سبھی سر پر کفن باندھ کر باہر نکلے ہوئے ہیں اور قابض بھارتی فوج کو للکار رہے ہیں، جگہ جگہجھڑپیں ہورہی ہیں اور بھارتی فوج پیلٹ گنوں سے بچوں اور جوانوں کے جسموں اور چہروں کو چھلنی کررہی ہے۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا یہ طریقہ تجویز کیا ہے کہ پوری قوم ہر جمعہ کو دن کے بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک اہل کشمیر کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کرے۔ اس مضحکہ خیز تجویز پر عمل کرنے سے کشمیریوں کی صحت پر کیا اثر پڑے گا اور ان کے مصائب میں کیا کمی آئے گی؟۔ اس کا اندازہ تو عمران خان ہی بہتر لگا سکتے ہیں، البتہ اہل کشمیر انہیں مخاطب ہو کر زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو فریاد سنو گے؟
’’حاکم‘‘ ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں لیتے!
اہل کشمیر کی اُمیدیں صرف اور صرف پاکستان سے وابستہ ہیں، وہ خود کو ذہنی طور پر پاکستان کے شہری سمجھتے ہیں، وہ قابض بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستانی پرچم اُٹھائے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگارہے ہیں۔ وہ اپنی نہیں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان ابھی تک گومگو کی حالت میں ہے ایسے میں محبان کشمیر کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے اور یہ فوج اس وقت تک وہاں تعینات رہے جب تک کشمیر کے مستقبل کا کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ عالمی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اب تک دنیا کے جن ملکوں میں بھی امن فوج بھیجی گئی ہے ان کے حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے اس وقت مقبوضہ کشمیر کے ہیں، بھارت نے پورے علاقے کو لاک ڈائون کر رکھا ہے اور اس کی قابض افواج موت کا وحشیانہ کھیل کھیل رہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر انہیں نہ روکا گیا تو انسانی تاریخ کا نہایت سنگین المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ یہ ذمے داری اقوام متحدہ کی ہے کہ وہ اس المیے کو رونما ہونے سے روکے اور اس خطے کو مکمل تباہی سے بچائے۔ اقوام متحدہ کی یہ ذمے داری اس لیے بھی بنتی ہے کہ خود اس کی قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس کا فیصلہ حق خود ارادی کی بنیاد پر ہونا باقی ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنے حالیہ بند کمرے کے اجلاس میں کشمیری عوام کے اس حق کی توثیق کی ہے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حیرت ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ نے ابھی تک اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کرنے کا ایشو نہیں اٹھایا، حالاں یہ ایسا ایشو ہے جس پر زبردست ہوم ورک اور سفارتی کوششیں ہونی چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے 23 ستمبر کو امریکا جارہے ہیں وہ جہاں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ نہایت بے جگری سے لڑیں وہیں یہ مطالبہ بھی پوری شدت سے اٹھائیں کہ مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر امن فوج بھیجی جائے اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت جو دونوں ایٹمی ملک ہیں آپس میں ٹکرا جائیں گے اور اس سے دنیا میں جو تباہی پھیلے گی اس کی ذمے دار صرف اور صرف اقوام متحدہ ہوگی۔ اس مطالبے کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے او ردوست ممالک کو اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ یہ ممالک بھی جنرل اسمبلی میں اس مطالبے کی تائید کریں، کشمیری عوام کی جانیں بچانے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔