کچرا کیسے کم کیا جائے

340

نیئر تاباں

کچھ بھی لینے سے پہلے آپ ایک بار رک کر یہ سوچیں کہ کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟ خواہش نہیں ، ضرورت ۔ پہننے اوڑھنے کی چیز ہو ، گھر کی سجاوٹ کی ، نت نئے برتن یا بچوں کے کھیلنے اور کھانے کی ، پھر سے Wants vs Needs کا موازنہ کرلیں ۔
آن لائن شاپنگ سے بچیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تک شاپنگ کے لیے بازار جانا ضروری تھالیکن اب آن لائن شاپنگ کی وجہ سے ونڈو شاپنگ کرنا بے حد آسان ہو گیا ہے ۔ کپڑوں کی ویب سائٹ دیکھتے ر ہو ، جب سیل لگے ، بلا ضرورت ہی سلیکٹ کریں ، وہیں آن لائن ادائیگی کریں اور گھر بیٹھے کپڑے وصول کرلیں ۔ اسی طرح ایما زون وغیرہ ۔ یاد رہے کہ جتنے دور سے آپ چیز منگوائیں گے ، اتنا زیادہ اس پر فیول لگا ہو گا ، جو ماحول کے لیے خراب ہے ۔ علی ایکسپریس جیسی سائٹس کا بائیکاٹ کریں جو چائناکا کچرا آپ کودیتی ہے ۔ چائنا کی چیزوں سے بچنا بہت مشکل ہے لیکن کوشش حتی المقدور کریں ۔ وہ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے ، ہمارا بنتا نہیں ہے کہ ہم انہیں اتنا بزنس دیں ۔ جتنی لوکل پراڈکٹس آپ استعمال کریں گے اتنا آپ کے ملک کے لیے اچھا ہے ۔ اور ماحول کے لیے بھی اچھا ہے ۔
گھٹیا کوالٹی کی چیز لینے کے بجائے ایک بار اچھی چیز لیں اور اس کو خوب استعمال کریں ۔ آٹھ آٹھ سو روپے کے جوڑے لینا اور پتا نہیں کتنے لے لینا، اس سے بہتر ہے کہ بہتر کوالٹی لیں او رپھر تین چار سال استعمال کریں ۔ اس کو ایک اور زاویے سے دیکھیں ۔ ایک کاٹن کی ٹی شرٹ بننے میں 72 لیٹر پانی لگتا ہے جو ایک انسان کے پینے کے لیے ڈھائی سال تک کافی ہے ۔ اب شلوار قمیص ، دوپٹے کے بنانے میں کتنا پانی لگتا ہے ، یہ آپ حساب لگائیں ۔ اس لیے جب لیں تو اچھا لیں اور پھر اس کو خوب استعمال کریں ۔ ایک جینز کی پینٹ بننے میں ۷۶۰۰لیٹر پانی لگتا ہے ۔ یہ ایک انسان کی ساڑھے سات سال تک کی پینے کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ ممکن ہو تو سیکنڈ ہینڈ لے لیں ،یا نئی لیں تو آپ کو کالے اور برائون اور ہلکے گہرے نیلے بہت سے رنگوں کی ڈینم نہیں چاہیے ۔ ایک لیجیے اور اس کو بہت سال چلایے ۔
اپنے آپ کو شکر گزار رکھیں ۔ منیملزم کا یہ مطلب نہیں کہ مفلس حال اور مسکین نظر آنا ہے یا شرمندہ ہوتا کہ ہائے تیسری بار یہی کپڑے پہن کے ان کے گھر جا رہے ہیں ۔ دو چار بنیادی رنگوں کے پاجامے اور دوپٹے رکھیں اور کرتے قدرے زیادہ رکھ لیں۔
بازار جائو تو میک اپ ،یا کلینگ پراڈکٹس کے سیمپل پکڑاتے ہیں ۔ کبھی نہ لیں ۔ خواہ مخوہ کا کچرا ۔ بزنس کارڈ کوئی دے تو نہ لیں ، پکچر لے لیں ۔ اسی طرح فلائر وغیرہ گھرمیں پھینک دیتے ہیں ۔ انہیں منع کریں یا گھر کے دروازے یامیل باکس پر لکھ کر لگا دیں کہ ہمیں فلائر نہ دیے جائیں ۔
یوںمنیملزم سے کافی کچرا تو یونہی کم ہو گیا کہ اب آپ بلا ضرورت چیزیں گھر میں نہیں لاتے ۔ لاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں سیکنڈ ہینڈ لے آئی جائے تاکہ پیکجنگ نہ ہو ۔ اب آئیں ضرورت کی چیزوں پر:
نیچرل وے آولونگ میں صرف کھانا پینا ہی آرگینگ نہیں ، بلکہ عمومی طور پر بھی پلاسٹک اورکیمیکلز والی چیزوں سے گریزکرنا۔ پلاسٹک آج کے دور کا بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ایک جہدِمسلسل ہے ۔ لیکن شعوری کوشش سے اس پر بہت حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر پہلے بات ہو چکی ہے ، پھر سے دہرا دیتی ہوں ۔
کچن میں:
کلنگ فائل کے بجائے پلیٹ سے ڈھک لیں ۔ سینڈ وچ ، سلاد وغیرہ کے لیے ایئر ٹائٹ ڈبے کا استعمال کریں ۔
زپ لاک کے بجائے ڈبوں کا استعمال کریں۔
ٹاول پیپر کے بجائے تولئے کے نیپکین جو ہفتے بعد تولیوں کے ساتھ دھل جائے ۔
کچن اسپنج کے بجائے جالی والا کپڑا جو تولیوں کے ساتھ دھل جائے ۔ اسپنج پلاسٹک میٹریل کا ہوتا ہے جوری سائیکل نہیں ہو سکتا ، نہ کمپوسٹ ہو سکتا ہے ۔
پھل ، سبزی اتنی ہی لی جائے جتنی استعمال کرنی ہو ۔ زائد ہو جائے تو فوراً اس کو ابالنا ہے ، یا سمودی بنانی ، آیس لالی بنانی ، پیسٹ بنا کر فریز کرنی ، جو بھی کرنا ہو کیا جائے تاکہ ضائع نہ ہو ۔
دہی جیسی چیزجوگھر میں بآسانی بن سکے ،گھر میںبنائیں ۔ جو چیزیں خود نہیں بنا سکتے ، وہ بڑا سائز خریدیں ۔ یعنی دہی کے چھوٹے سنیک سایز ، یا چھوٹا پیکٹ چپس ، یا چھوٹا پیکٹ بسکٹ کا لینے کے بجائے بڑا پیکٹ لیں اور بچوں کوپلیٹ میں نکال دیں ۔
انڈوں کی ٹرے سنبھال کر رکھیں اور انڈے لینے جائیں تو دکاندار کو پچھلی ٹرے واپس کر دیں ۔
گراسری کے لیے ڈبے یا تھیلیاں گھر سے لے کرجائیں تاکہ چینی ، نمک ، مصالحہ جات ، دالیں ، پاسٹا، کشمکش ، بادام، خشک دودھ ، بیسن ،ا ٓٹا، میدہ اور باقی تمام خشک گراسری پلاسٹک کی تھیلیوں میں نہ آئے ۔ ان تھیلیوں کو رکھنے کے لیے بھی بڑے تھیلے سی لیں ۔ صرف ایک بار یہ کر کے دیکھیں ، آپ کو پتا چلے گا کہ پوری گروسری ہو گی ، اور کوئی تھیلے اور تھیلیاں آپ کو کچرے میں پھینکنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔
سبزی ، پھل کے سارے چھلکے، بیج اور گلے سڑے ہوئے حصے کمپوسٹ میں پھینکیں ۔
باتھ روم:
فیس واش ، کلینر ز،میک اپ ، ریموور ، سکرب ، کیوٹیکل کریم ، ہینڈ کریم ، ڈے کریم ،نائٹ کریم ، انڈر آئیکریم، فٹ کریم … اورپتا نہیں کیا کیا کریمیں ۔ ان کی جگہ خالص تیل کی بوتل چاہیے ، وٹا من ای کی بوتل رکھ لیجیے ۔ بس اتنا ہی چاہیے ! رنگا رنگ چیزیں نہ لیں( منیملزم!)
ٹوتھ پیسٹ گھر میںبنا لیں ۔ کو کو نٹ آئل کافی ہے ۔ چاہیں تو تھوڑا سا بیکنگ سوڈا ڈال لیں۔ چاہیں تو پیپرمنٹ آئل چند قطرے ۔ دانت صاف ستھرے چمکدار ارو خالی ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب نہیں پھینکنی پڑتی ۔
شیمپو ایک ماہ سے زیادہ ہوا استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ مہینے میں ایک بار انڈے سے ، باقی دن بیسن گھول کر اس سے بال دھوئیں ۔ کھلے پانی سے بالوں کو خوب اچھی طرح دھو لیں ۔ آخری پانی میں سرکہ ملا کر بال دھوئیں اور صاف ستھرے ریشمی بال ۔ یوں یہ بھی ہر ماہ کی بوتل کچرے میں جانے سے رہ جائے گی ۔ ریٹھے ،سکاکائی وغیرہ کی افادیت بھی ہمیشہ سے جانی مانی ہے ۔ چاہیں تو وہ استعمال کر لیں ۔
ویکس بھی گھر میں بن سکتی ہے ، پانی، لیمن جوس اور ایک دو بار تجربہ کرنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس وقت چولہے سے اتارنی ہے ۔
صابن اگر گھر میں بنا سکیں تو اچھی بات ، گھر کا بنا ہوا خرید سکیں تو بھی اچھی بات ، اگر ریپر والا خریدنا ہو تو پیپر کی ریپنگ ہو ، پلاسٹک والی نہیں ۔ ہینڈ واش رکھنا ہے تو بس مہمان کے لیے رکھ لیں ۔ خود بھی ضرور اگر لیکوڈ ہینڈ واش استعمال کرنا ہی ہے تو سب سے بڑی بوتل خریدیں تاکہ خالی پلاسٹک کی بوتلیں بار بار کچرے کی زینت نہ بنیں ۔
لین دین:
گفٹس کے بجائے Experiences دیں ۔ تحائف دینا ہوں تو پودا دیجیے ۔ ریپنگ پیپر چونکہ ری سائیکل نہیں ہوتا اس کے بجائے کسی کاٹن کے سکارف یا چھوٹے کچن ٹاول ، یا کاٹن کی ٹی شرٹ میں ریپ کریں ۔ یا اخبار وغیرہ کا استعمال کریں ۔Wrapping gift japenese techniques دیکھیں ۔ غبارے وغیرہ نہ کود سجائیں نہ کسی کو تحفے میں دیں ۔ سمندری مخلوق کے لیے قاتل ہیں ۔
موج مستی
باہر کبھی کھانے کا موڈ ہو تو اپنے برتن گھر سے لے کر جائیں ۔ کافی ، آئس کریم وغیرہ بھی اپنے برتنوں میں لیجیے ۔ دعوتوں پر ڈسپوز ایبل کے بجائے گھر کے برتن استعمال کریں اور دوستوں کے ساتھ مل کر صفائی کا رواج ڈالیں تاکہ آپ کی اپنی کمر دہری نہ ہو جائے اکیلے برتن دھوتے دھوتے ۔ پکنک پر بھی گھر سے برتن لے کر جائیں ۔ میری سہیلی کہنے لگی کہکتنا برالگے گا کہ گندے برتن گھر لے کر جائیں ۔ میرا جواب تھا کہ وہ گند صاف تو ہو جائے گا ، جو ڈسپوز ایبل گندے برتن ہم کچرے میں پھینک کر جائیں گے ۔ وہ آئندہ سال یہیں ہوں گے ۔ ایک ورکشاپ لی تو پتا چلا کہ بند گوبھی کا ڈنٹھل جو چند ہفتوں میں ڈی کمپوز ہو جاتا ہے ۔ جب کوڑے کے تھیلے میں بند کر کے پھینکا جائے تو پچیس سال لگ جاتے ہیں ۔ اب اسی حساب سے سوچ لیں کہ ہم دعوتوں اور پکنک پر اپنی موج مستی کے نام پر جو گندگی ماحول میں چھوڑ آتے ہیں وہ کتنے سال ڈی کمپوز ہونے میں لیتی ہو گی ۔
یوں منیملزم سے کافی کچرا تو یونہی کم ہو گیا کہ اب آپ بلا ضرورت چیزیں گھر میں نہیں لاتے ، لاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں سیکنڈ ہینڈ لے آئی جائے تاکہ پیکجنگ نہ ہو ۔ باقی کسر نیچرل لونگ سے پوری ہوتی ہے ۔ جب آپ ڈسپوز ایبل چیزوں کے بجائے ری ڈسپوز ایبل چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔ لے دے کے دودھ کے ڈبے یا اس طرح کی چیزیں رہ گئیں، وہ ری سائیکلنگ میں چلی جاتی ہیں ۔ باقی کوڑے میں رہ گیا پھلوں ، سبزیوں کے چھلکے وغیرہ تو اس کے لئے کمپوسٹنگ ، جس کا ذکر اوپر کیا تھا ۔
کمپوسٹنگ شروع کیے ابھی ایک ماہ یا کچھ زیادہ ہوا ہو گا ۔ بڑا لان ہو تو پتے ، ٹہنیاں ، گھاس ، ناخن ، بال وغیرہ ، ٹشو کے ٹکڑے ، کپڑوں کی بُر ، گوشت اور دودھ کے علاوہ کچن سے نکلی ہر چیز چاہے خراب ہو ا پھل اور سبزی ، پھپھوندی لگی ،بریڈ ور ایک لمبی لسٹ ہے جو اس میں ڈالی جا سکتی ہے ۔ دس بارہ دن کے بعد ایک بیلچے سے ان چیزوں کو اُلٹ پلٹ کر دیا جاتا ہے ۔ اور یوں کچھ عرصے بعد یہ کھاد میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اب یہ اتنی کمال چیز ہے کہ آپ کے گھر کا تقریباً سارا کوڑا اس میں چلا جاتا ہے ۔