عددی اکثریت کا خالی کوٹھا

399

 

 

ایک شعر سن لیجیے:
فراق یار کی بارش، ملال کا موسم
میرے شہر میں اترا، کمال کا موسم
صادق سنجرانی کو سلیکشن مبارک ہو۔ دل خوش ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت کا حسن۔ 65ووٹ ہار گئے 35جیت گئے۔ عمران خان کہا کرتے تھے پیسہ سڑکوں پر نہیں لوگوں پر لگائو۔ ایسا کردیاگیا۔ 2018 کے الیکشن میں کیا ہوا تھا اور کس طرح ہوا تھا یہ اس کی ایک جھلک تھی۔ حکومت کا میاب نہیں ہوئی ایکسپوز ہوئی ہے۔ اکثریت کو کیسے اقلیت میں بدلا جاتا ہے دنیا آئے اور ہم سے سیکھ لے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس کے حق میں 64افراد کھڑے ہوئے۔ پھر 64کے 54 رہ گئے اور آخرکار 50 اسے کہتے ہیں صاف چلی شفاف چلی تاریک انصاف چلی۔
جمہوریت اور اکثریت کی پخ سے ہم کب پیچھا چھڑائیں گے۔ ہم اکثریت کو کامیابی کی ضمانت کیوں سمجھتے ہیں۔ کامیابی کے لیے اکثریت کی نہیں عسکریت کی آشیرباد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت کا جہان خراب عوام کی نہیں حقیقی طاقتوںکی دھن پر رقص کرتا ہے۔ طاقت کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ وہ جو جیلوں میں پڑے ہیں اگر ان کے ہوا دینے سے بغاوت برپا ہونے لگے تو منتظمین حقیقی کی مست خرامی پر کتے بھونکنا شروع کردیں۔ ہمیں طاقت کو دلیل تسلیم کرلینا چاہیے اور یہ بھی کہ این آر اوکا اختیار انہیں کو زیبا ہے۔ ہر معاملے کو 1973 کے آئین کے تناظر میں دیکھنے والوں کو این آراو کے معاملے میں ایسے ہی نظریں نیچی رکھنی چاہئیں جیسے طوائف کے کوٹھے پر خالی جیب جانے والوں کو۔ عددی اکثریت اگر سرکار کو نرغے میں لینے کی کوشش کرنے لگے، اس کے پالے پوسوںکے منہ کو آنے لگے، ان کا خانہ خراب کرنے لگے تو گلی محلے کے لونڈے ایسی سرکار پر تالیاں بجانے لگیں گے۔ 2018 کے الیکشن میں عددی اکثریت کچھ نہ کرسکی تو سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے میں یہ بکریاں شیر کے گھاٹ سے کیسے پانی پی سکتی تھیں۔
عمران خان نے صدر ٹرمپ کو جس طرح ذریعہ عزت اور افواج پاکستان کو ذریعہ حکومت بنا یا ہے، افغانستان میں وہ جو کچھ صدر ٹرمپ کے لیے اور نومبر میں جنرل باجوہ کے لیے کرنے جارہے ہیں اس کے بعدکسی بھی محاذ پر ان کی پسپائی کا خیال اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہے۔ اپوزیشن کو جتنی آزادی اور ہاتھ پیر ہلانے کی مہلت دی گئی ہے اسی میں رہتے ہوئے طاقت کے کھیل کو دیکھنا ہوگا۔ اس کھیل میں مداخلت! فی الحال اس کا موقع ممکن نہیں۔ مقدمے اور پیشیاں بھگتنے والوں کو شجر سے پیوستہ رہنے کی اجازت پر ہی سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔ عمران خان کی آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ تصویر آپ نے دیکھی ہے اس کے بعد کسی بغاوت کے برپا ہونے کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔ یہ تصویر ایک مضبوط سیاسی اور عسکری اتحاد کا اظہار ہے۔ ایک ایسا اتحاد جو اطمینان کی جان اور دلی مراد بر آنے کی نوید ہو اس میں اپوزیشن کو سوائے شور شرابہ کرنے کے کیا اجازت دی جاسکتی ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد معاشی ابتری سے جو لوگ ان کے ناکام ومراد ہونے کا خیال دل میں بسا بیٹھے تھے وہ غلطی پر تھے۔ معاشی انتشار کا مقصد انہیں ناکام بنانا نہیں راہ پر لانا تھا۔ جیسے ہی وہ راہ پر آئے، مردوں کے چالیسویں کا انتظام سنبھالا ان سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہ رہا۔ معیشت کا ٹھیکا آئی ایم ایف کو دینا، چین اور روس کو کنارے سے لگانا، سی پیک جیسے گیم چینجر کو گیم سے باہر کرنا وہ نشان منزل تھے جو انہیں صدر ٹرمپ تک لے گئے۔ صدر ٹرمپ سے انہوں نے کیا حاصل کیا سوائے اپنی حکومت کی بقا کی ضمانت کے۔ اس کے بدلے وہ افغانستان میں صدر ٹرمپ کے راستے کے کا نٹے اپنی پلکوں سے چننے پر تیار ہیں۔ جیسے ہی یہ کانٹے صاف ہوئے، افغانستان کی پھانس امریکا کے گلے سے نکلی، افغانستان میں ممکنہ امن معاہدہ ہوا امریکا میں بھانت بھانت کے پرندے پاکستان کے خلاف بولنا شروع ہو جائیں گے جن کی آواز میں آواز ملانے سے صدر ٹرمپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد ہی پاکستان میں اپوزیشن کی امیدوں پر برگ وبار آسکتے ہیں۔ اس سے پہلے اپوزیشن کو صرف ایک بات کا اختیار ہے۔سر پٹخنے کا اختیار۔ سو چیئرمین سینیٹ کا معاملہ ہو یا کوئی اور سر پٹختے رہیے۔
صادق سنجرانی کی جیت پر ضمیر فروشی یا بے ضمیری کے طعنے دینا مناسب نہیں۔ ضمیر فروشی اور بے ضمیری جمہوریت کا حصہ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ 14ارکان نے جو کچھ کیا اپنی پارٹی قیادت کی مرضی سے کیا ہے۔ زرداری صاحب کی طرف بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ زرداری صاحب آنکھ مچولی کے ماہر ہیں۔ زرداری صاحب اونٹ کو خیمے میں اس صفائی سے داخل کر سکتے ہیں کہ بدّو اپنے بال نوچتے رہ جائیں۔ نواز شریف کی تاریخ بھی یہی ہے وہ کتنے ہی اداس اور فکر مند ہوں اپنے فائدے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ سب باتیں اس گیم پلان کا حصہ ہیں جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ارکان کو اپنی پارٹی قیادت سے متنفر کرنا اور اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے سے بدظن کرنا ہے۔
قارئین محترم جی ہلکا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تمام ڈرامے بازی سے آپ کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ افسوس کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ایوان بالا کے پاکیزہ اور مقدس ایوان کا یہ حال ہے کہ ظہرانے میں 64ارکان مزے مزے سے دعوت اُڑائیں، تحریک کے وقت کھڑے ہوکر اپنے روئے مبارک کی زیارت کرائیں اور پھر چند لمحوں بعد ہی کوچہ ضمیر فروشاں کے طواف کو جا نکلیں۔ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین ہیں تو ملک میں کون سا سوغاتیں بٹ رہی ہیں حاصل بزنجو کامیاب ہوجاتے تو کون سا دودھ شہد کی نہریں بہنے لگتیں۔ سینیٹ ایلیٹ کی حکمرانی کے قیام کے لیے ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، پیروں، نام نہاد دانشوروں، سیاسی رہنمائوں اور سرکاری مولویوں کے مفادات کے تحفظ کا ادارہ ہے۔ جس کی آدھی مدت ایک حکومت میں گزرتی ہے اور بقیہ دوسری حکومت میں۔ یہ دو تہائی اکثریت کے زعم میں مبتلا نواز شریف کو قابو میں رکھتی ہے اور دوسری طرف کسی بڑی تبدیلی کو روکنے کے بھی کام آتی ہے۔ دونوں طرف ہی ڈاکوئوں کے ٹولے ہیں۔ عوام کبھی کسی مرحلے پر فریب کھا جاتے ہیں اور کبھی کسی۔ عوام کو فریب دینے کے لیے کبھی یہ بیانیہ سامنے لایا جاتا کہ ان کے مسائل کی وجہ پرویز مشرف کی آمریت ہے۔ عوام کی قربانیوں کے نتیجے میں آمریت رخصت ہوتی ہے اور زرداری کی جمہوری حکومت آتی ہے تو یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ زرداری کرپٹ ہیں۔ زرداری کے بعد نواز شریف آتے ہیں تو یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ یہ چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت ہے۔ نواز شریف پابند سلاسل کردیے جاتے ہیں تو صادق اور امین بیانیہ سامنے آتا ہے۔ یہ بیانیہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک یہ مارکیٹ کے تقاضے پورا کرتا رہے گا۔ قومی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچتا رہے گا۔ تب تک اے پیارے لوگو! چل تھیا تھیا تھیاں… چل تھیا تھیا تھیاں