گونگا انقلاب!

342

 

 

ہماری حکومتوں کو خاموش سفارت کاری کا بہت شوق رہا ہے۔ اس معاملے میں بے نظیر بھٹو نے بہت نام کمایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ کمائی بلاول زرداری کے کس کام آتی ہے۔ خاموش سفارت کاری کا ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ البتہ اس معاملے میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اب دیگر ادارے خاموش انقلاب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ حالاں کہ انقلاب کبھی خاموش نہیں ہوتا گونگے انقلاب لانے کی کوشش کریں تب بھی انقلاب خاموش نہیں رہتا۔ انقلاب اتنا بے قابو ہوتا ہے کہ وہ اپنی آواز پر بھی قابو نہیں رکھتا۔
عزت مآب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ
نے انکشاف کیا ہے کہ عدلیہ نے عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے خاموش انقلاب برپا کردیا ہے۔ معروف ادیب اور بزرگ صحافی محترم عرفان صدیقی کو جس طرح گرفتار کرکے جو کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے اس نے خاموش انقلاب کو دھما چوکڑی بنادیا ہے مگر چیف صاحب! اپنے خاموش
انقلاب کی طرح خاموش ہیں۔ چیف صاحب! فرماتے ہیں کہ ہمارا قانون ہر شہری کو برابر کے حقوق دیتا ہے سو، اب وہ خواتین بھی قانون کی گرفت میں آئیں گی جو اپنے شوہروں پر تشدد کرتی ہیں، ان کے اس کے فرمان سے انکار ممکن نہیں کہ انصاف میں تاخیر اور ناانصافی کی سب سے بڑی وجہ جھوٹے گواہان اور ان کی شہادتیں ہیں مگر اب کوئی بھی شخص جھوٹی گواہی نہیں دے سکے گا کیوں کہ جھوٹی شہادت کی سزا مقرر کردی گئی ہے۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جھوٹے شہیدوں کے لیے کیا سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان کا یہ فرمان بھی قابل توجہ ہے کہ عدلیہ سے پولیس اصلاحات کے لیے جو اقدامات کیے تھے اس کے نتائج بڑے مثبت اور خوش آئند ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں دائر ہونے والے مقدمات میں گیارہ فی صد اور اعلیٰ عدلاتوں میں بیس فی صد مقدمات کے اندراج میں کمی آئی ہے، مگر چیف صاحب کا یہ بیان زمینی حقائق اور عدلیہ کی کارکردگی تائید کرنے کے بجائے پولیس کو خوش کرنے کی سعی نامشکور دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ لوگ عدلیہ اور پولیس سے اتنے تنگ اور بیزار ہیں کہ وہ بہت سے معاملات آپس ہی میں طے کرلیتے ہیں۔ ہمارا نظام عدل جن خطوط پر استوار ہے اس میں انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں۔ حیرت ہے جو بیان پولیس چیف کو دینا چاہیے عدلیہ کے چیف نے کیوں دیا؟۔
ہم چیف جسٹس پنجاب سے گزارش کریں گے کہ وہ پنجاب کی عدالتوں کی کارکردگی کا بہ نفس نفیس جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مسند انصاف پر براجمان ہونے کا مقصدحکومت سے مراعات سہولتیں اور بھاری بھرکم تنخواہ کے سوا کچھ نہیں۔ بہاولپور ہائی کورٹ میں ابھی تک 2012ء تک کے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ جسٹس صاحب مقدمات کی سماعت کرنے کے بجائے لیفٹ اوور کے ہتھوڑے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ 2016ء کے ایک مقدمے کی جلد سماعت کے لیے ایک 80 سالہ بزرگ نے درخواست دی تو جسٹس صاحب نے پیشی میں مزید دو ماہ کا اضافہ فرما کر اپنے اقتدار کا علم لہرا دیا۔ حالاں کہ مذکورہ مقدمہ سول کورٹ اور سیشن کورٹ سے اس لیے خارج کیا گیا ہے کہ مدعی کے پاس حق ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں، مالک مکان نے خدا ترسی کرتے ہوئے رہائش کے لیے مفت مکان دیا تھا مگر اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر نے مالک مکان کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ ذہنی دبائو اور شوگر نے چلنے پھرنے سے بھی معذور کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس پنجاب اس معاملے میں کیا فرماتے ہیں؟۔