آزادی کے جشن سے پہلے سوچیں

511

صبیحہ اقبال

جشنِ یوم آزادی در اصل ملک کے آزاد ریاست کا درجہ حاصل کرنے کی سالانہ سالگرہ کی یاد کی تقریبات ہوتی ہیں وہ تاریخ جبکہ ملک کسی دوسرے ملک کی غلامی سے یا حکومتی گرفت سے آزاد ہوتا ہے تو اس دن کو ہر سال آزادی کی خوشی میں تقریبات منائی جاتی ہیں ۔ دنیا بھر کے تقریباً تمام ہی ممالک میں یوم آزادی پر جوش انداز میں منایا جا تا ہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک آزادی سے قبل کسی جابر ملک کی غلامی کا اسیر تھا ۔ اور جیسے ہی وہاں کے عوام کو اس سے نجات ملی وہ دن ان کے لیے جشن کا ہو گیا ۔
برصغیر ہند نے بھی برطانیہ کے تقریباً سو سالہ تسلط سے 14اگست 1947ء کو رہائی حاصل کی ، برصغیر اس آزادی کے بعد دو ریاستوں میں منقسم ہوا ، پاکستان اور بھارت ، پاکستان اپنا جشن آزادی 14 اگست کو مناتا ہے ۔ 21توپوں کی سلامی کے ساتھ دن کا آغاز، سرکاری طور پر عمارتوں کو سجایا جاتا ہے ، شہروں میں چراغاں کیا جاتا ہے ۔ مینارِپاکستان پر قومی حیثیت کی حامل تقریب میں وزیر اعظم اور صدر پاکستان قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے ۔
ذرائع ابلاغ سے براہ رست صدر وزیر اعظم کی تقاریرنشر کی جاتی ہیں اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب مل کر وطن عزیز کو ترقی خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پر لے جانا ہے۔
کسی بھی ملک کی یوم آزادی کے موقع پر حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہتر حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام الناس سے وعدہ کرتے ہیں کہ ’’ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر وطن کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے ( چاہے حادثات میں ترقی ہو یا یہ ترقی مہنگائی میں ہو یہ ایک الگ بات ہے ) ہمیشہ اپنے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے قول’’ ایمان‘‘، ’’اتحاد ‘‘اور ’’تنظیم‘‘ کی پاسداری کریں گے ۔
رنگا رنگ تقاریب: تقاریر اور مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا ہے ان تقاریب میں قائد اعظم کے مقبرے پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ، واہگہ بارڈر پر ثقافتی تقریب میںاحترامی محافظوں کی تبدیلی کا عمل ، غلطی سے واہگہ بارڈر پار کر جانے والے قیدیوں کی رہائی کا عمل سر فہرست ہیں ۔
یوم آزادی کے موقع پر ٹی وی ، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر مختلف صوبائی ثقافتوں کے ساتھ مادری زبانوں میں وطن پرستی پر معمور نغمات بھی نشر کیے جاتے ہیں ۔
مختلف ڈاک ٹکٹ کا اجراء بھی اسی دن کیا جاتا ہے ۔
سبز سفید شلوار قمیض اور دوپٹوں کی بہار ، چہروں پر رنگ ، قومی پرچموں کی بہار ، اور انہی رنگوں کی مناسبت سے ٹوپیاں ، اور چوڑیوں کے چنائو کو دیکھ کر محبت جیتی جاگتی محسوس ہوتی ہے ۔ جو وطن دوستی کے حوالے سے خوشی فراہم کرتی ہے ۔ ہر شخص وطن کی محبت سے سر شارمحسوس ہوتا ہے ۔ ارضِ پاک سے محبت کرنے والوں میں بچے بوڑھے جوان ، سب شامل ہیں لیکن یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں پختہ ہونی چاہیے کہ آزدای کا دن ایک انتہائی اہم اور عہد ساز دن ہوتا ہے ۔ ہماری ریاست میں آزادی کے پیمانے کئی انداز سے سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے بیشتر کم تر ذہنی سطح کی عکاسی کرتے ہیں ۔ مثلاً رات گئے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوںپر جلوس کی شکل میں نکلنا اور غل غپاڑہ مچانا ۔ جب ہمارے بزرگ اپنی مرضی سے سو بھی نہ سکیں کیا آپ اس کو آزادی کہہ سکتے ہیں ۔ ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ جب آزادی ہمیں ملی تو وہ خون میں ڈوبی ہوئی تھی ہندو مسلم تعصب اور تنگ نظری کی آگ ایسی بھڑکی کہ ہندوستان کا صدیوں کا تہذیبی سرمایہ اس میں خاکستر ہو گیا ۔ اور اعلانِ آزادی کے باوجود ہر طرف بجھی فضا تھی اور دادِ انسانیت لہریں لے رہا تھا
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
خطرناک مذہبی فسادات کے نتیجے میں تقریباً دو لاکھ افرادمارے گئے اور ان گنت بے گھر ہوئے حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ 11اگست 1947ء کو اس حوالے سے فرما چکے تھے کہ ’’ آپ آزاد ہیں مندر میں جانے کے لیے ، آپ آزاد ہیں مسجدوں میں جانے کے لیے اور آپ آزاد ہیں یاست پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔
اتنے واضح بیان کے باوجود ہندوستان کی ریاست پاکستان کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا اور ان کی تنگ نظری سے مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو ان کے ہاتھوں پائمال ہوئی ۔محسن بھوپالی نے بالکل درست کہا
ملا نہیں یہ وطن پاک ہمیں تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
اور یہی نہیں کہ ہندوستان بہتر سال قبل مسلمانوں کو خطہ زمین ملنے پر سیخ پا ہوا تھا وہ آج بھی اسی طرح پاکستان کو دل سے قبول نہیں کر پایا ۔ اسے غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا ۔لہٰذا ہمیں اپنے ازلی دشمن کو دشمن ہی سمجھتے ہوئے اپنی آزادی کا دفار کرنا چاہیے ۔ جس دو قومی نظریے کے تحت پاکستان وجود میں آیا اس نظریے کی ترویج با قاعدہ ہونی چاہیے ہمارے عقیدے ، معاملات ، طرزِ زندگی ، طرز حکومت میں اس نظریے کو حاوی رہنا چاہیے کیونکہ آزادی کے لیے محض زمین کے قطعوں کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا بسیرا تو دل و دماغ میں ہوا کرتا ہے لیکن اگر آزادی کو دل و دماغ میں جگہ نہ پا سکے تو یہ اپنی بے توقیری اور توہین کا انتقام غلامی کاشکنجہ کس کر لیتی ہے ۔ چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی اور معاشروں کو بنجر کر ڈالتی ہے ۔
اور ہم اس بنجر ذہن کے ساتھ انہی کے پیچھے چلتے رہتے ہیں جن سے مایوسی کی تگ و دو میں اپنا بہت کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں۔
کیا بحیثیت قوم ہم کچھ ایسا ہی نہیں کر رہے ۔
ہمارے نظریات ہماری ثقافت، ہمارے ذہنی بنجر پن کا پتا دے رہے ہیں
ہم نے یہ وطن اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اسلامی اقدار کے ساتھ اپنی زندگی آزادی کے ساتھ بسر کر سکیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ کیا ہم اپنی اسلامی اقدار و قوانین سے مانوس بھی ہیں؟ یا ہم انڈین چینلز کے جال میں پھنسے ہوئے اپنے لیے وہی کھانے پسندکرتے ہیں جو وہ ہم کو کھلانا چاہتے ہیں ۔ وہی پہننا پسند کرتے ہیں جو وہ ہمیں پہنانا چاہتے ہیں ۔ وہی بودو باش جو ان معاشروں میں رائج ہے ہمارے کلچر کا حصہ بن رہی ہے اور قیام پاکستان کے محرک دو قومی نظریے کو دریا برد کرنے کے دعویدار کو سچا کر دکھا رہے ہیں پھر تو ہماری آزادی کہاں گئی ،پھر کیسی تقاریب اور کیسی خوشی؟
حضرت مسیح کا قول ہے’’ حقیقی آزادی سچائی کو قبول کرنے سے حاصل ہوتی ہے ‘‘ ور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسلام سب سے سچا دین ہے گویا ہمیں اپنی آزادی بر قرار رکھنی ہے تو دین اسلام کے قوانین کو قبول کرنا ہو گا ۔
جس طرح ایک ریاست میں دو بادشاہ حکومت نہیں کر سکتے اسی طرح ملک میں یا تو آزای راج کر سکتی ہے یا پھر محض غلامی ۔ پھر میں سوچوں بلکہ ہم سب سوچیں کہ آیا غلام ہیں یا آزاد؟