کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

402

نواز شریف کے مشیر، ماہر تعلیم، نامورکالم نگار، ممتاز دانشور عرفان صدیقی بھی احتسابی ٹوٹا بناکر لٹال دیے گئے۔ انہیں 14روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ وجہ کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی۔ انہوں نے اپنے کرایہ دارکی معلومات متعلقہ تھانے کو فراہم نہیں کی تھیں۔ اس فار میلٹی کے پورا نہ کرنے کے سنگین جرم میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ تحریک انصاف کے کسی لیڈر تو کجا معمولی ورکر سے بھی ایسا جرم سرزد ہوجاتا تو اسے ایک معمولی غلطی باور کیا جاتا۔ پولیس پراپرٹی ڈیلر یا مالک مکان کو معمولی سی تنبیہ کرکے چھوڑ دیتی لیکن معاملہ نواز شریف کے مشیر کا تھا لہٰذا قانون کو تو حرکت میں آنا ہی تھا۔ عرفان صدیقی کو گرفتار کرنے کے لیے رات گیارہ بجے سادہ اور باوردی کپڑوں میں پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد آئی تھی۔ ظاہر ہے ایک بڑے دہشت گرد کی گرفتاری کا معاملہ تھا۔ ان کے باس نواز شریف سسلین مافیا سے تعلق رکھتے ہیں تو چھوٹے موٹے گینگ کے سربراہ تو وہ بھی ہوں گے۔
عرفان صدیقی گزشتہ پانچ برس سے اقتدار کے ایوانوں میں کرپشن کا منہ چڑا رہے ہیں۔ جس کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے اس مکان کی ملکیت بھی ان کے بیٹے کے نام ہے۔ کرایے نامے پر بھی ان کے دستخط نہیں لیکن جس دھن پر ہمارے یہاں انصاف رقصاں ہے اس میں ایسی چھوٹی موٹی باتوں کو انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا جاتا۔ عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ آفرین ہے جوڈیشل مجسٹریٹ مہرین بلوچ پر جوایک بزرگ قلمکار کو ہتھکڑیاں لگا دیکھنے پر معترض نہیں ہوئیں۔ انہوں نے پو لیس اہلکاروں کی سرزنش میں ایک لفظ کہنا ضروری نہیں سمجھا۔ چودھری ظہور الٰہی پر بھینسوں کی چوری سے لے کر عرفان صدیقی پر حالیہ مقدمے تک ہمارا نظام عدل ایسی مثالیں قائم کرتا رہتا ہے جو قانونی فیصلوں میں نظیر بننے کے بجائے صرف لطیفوں کی کتابوں میں جگہ پا سکتی ہیں۔ سب جانتے ہیں عرفان صدیقی کو اس جرم عظیم میں گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ سسلین مافیا کنگ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ ہماری عدالتیں مسلم لیگ ن کے وابستگان کو جس طرح انصاف کے نیوتے بھیج رہی ہیں لگتا ہے کچھ ہی دن گزریں گے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ انصاف بھی فریاد کناں ہوگا:
ہماری بھی فریاد سن لیجیے
ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے
تبدیلی کے اس دور میں یہ یقین رکھنا ہی باعث عافیت ہے کہ گرفتاری کے یہ فیصلے کسی کے ذہن رسا کی پیداوار نہیں۔ انصاف کی لاٹھی ہے، اپوزیشن پر جہاں پڑ جائے اور جس پر پڑ جائے۔ سی پیک جیسے گیم چینجرکو گیم سے نکال باہر کردیا گیا، اپوزیشن کی تو کیا اوقات ہے۔ حکومت اور عدلیہ میں ایک مقابلہ جاری ہے، دیکھیں کون کس کا دل زیادہ خوش کرتا ہے۔ کرکٹر وزیر اعظم کی حکومت ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی عدلیہ بھی گگلیاں اور بائونسرز ماررہی ہے۔ اس کے بغیر گیم کا مزہ بھی تو نہیں آتانا۔ عمران خان ورلڈ کپ کی نئی ٹرافی لے کر جہاں سے آئے ہیں وہاں جنگ جیتنے کے لیے ایک کروڑ لوگ مارنا بھی ایک آپشن ہے تو اگر پاکستان میں جنگ جیتنے کے لیے پوری اپوزیشن کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانا پڑے تو یہ کون سی ناممکن بات ہے۔
حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا ماحاصل یہ ہے کہ معیشت کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے، عدالتیں فریق بن گئیں ہیں، سیاست بند گلی میں آگئی ہے لیکن وزیراعظم کی جمع ضرب تقسیم میں ملک بحران سے نکل آیا ہے۔ پاک امریکا تعلقات کا دروازہ خاور پھر سے کیا کھلا وہ اپوزیشن کا بغیرکلوروفام سنگھائے آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے تازہ ارادوں میں اگلا نمبر میڈیا کا ہے۔ جمہوری بہروپ کی پاسداری کے لیے حکومتیں اپوزیشن سے بناکر رکھتی ہیں، میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندی تک محدود رہتی ہیں۔ عمران خان کسی ایسے تکلف کے روادار نہیں۔ وہ اپوزیشن کے ایک ایک لیڈر کو سولی پر چڑھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ میڈیا پر اعلانیہ سنسر شپ لگا رہے ہیں اس دعوے کے ساتھ ’’کیچ می اف یو کین‘‘۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا یہی تو مزہ ہے۔ ادھورا سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں میں کرپٹ اور چور موجود ہیں۔ مکمل سچ یہ ہے کہ صرف زرداری اور نواز شریف کرپٹ ہیں۔ اس بیانیے پر یقین نہ آئے تو عدالتوں سے کنفرم کرلیجیے۔ چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے پوچھ لیجیے۔ قشقہ کھینچا، نیب میں بیٹھا، کب کا ترک انصاف کیا۔
وزیراعظم کے امریکا کے دورے کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلی محاذ پر ملک کو مظبوط کیا جائے۔ داخلہ پالیسی سے حکومت کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں تو کامیاب خارجہ پالیسی صرف ستائشی طبلہ بجانے کے لیے رہ جاتی ہے۔ 25جولائی کو اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ حکومت کی ایک سالہ کارکر دگی یہ ہے کہ جمہوری اقدار روبہ زوال ہیں۔ حکومت کو ان کی کوئی خاص فکر بھی نہیں ہے۔ آزادی رائے پر قدغن وزیراعظم کا اگلا اقدام ہے۔ وہ جن ہوائوں میں اڑ رہے ہیں اس کے بعد وہ ہر ادارے کو علی الحساب اپنے پہلو میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام پر معاشی ظلم کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ادارے متنازع بنادیے گئے ہیں۔ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان ایک منتقم مزاج شخص ثابت ہوئے ہیں۔ وہ اپوزیشن کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیب کا حال یہ ہے کہ عمران خان اپوزیشن کے کسی فرد پر اچٹتی ہوئی نگاہ بھی ڈال دیتے ہیں تو نیب اس کی گرفتاری کی فکر میں لگ جاتی ہے۔ اپوزیشن ایسی صورت حال ہی میں قوم کی آواز بن کر سامنے آتی ہے۔
عمران خان 126دن کنٹینر پر چڑھے خلائی طاقتوں سے رابطے اور تبدیلی کو اپنا جمہوری حق قرار دیتے رہے لیکن آج اپوزیشن کو وہ چند گھنٹوں کا شو کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ مریم نواز نے منڈی بہا الدین میں خطاب کرنا چاہا تو جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا گیا۔ فیصل آباد کا ارادہ کیا تو انہیں ایم پی او 16کا سامنا کرنا پڑا۔ ن لیگ کی تقریباً ساری قیادت بند ہے اس پر بھی صبر نہیں آیا تو 78سالہ عرفان صدیقی جیسے قلم کار کو اٹھا لیا۔ میڈ یا پابند ہے کہ وہ اپوزیشن کے جلسوں کی کوریج نہ کرے۔ زرداری، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف حکومت کا موقف ہے کہ وہ سزا یافتہ ہیں لہٰذا میڈیا ان کی تقاریر اور انٹرویو نشر نہ کرے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے چالیس فی صد اراکین مقدمات میں ملوث ہیں یا سزایافتہ ہیں۔ بھارتی میڈیا کو تو ان کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ حکمران جلد ہی ایسے خوشامدیوں اور چاپلوسیوں کے گھیرے میں آجاتے ہیں جو انہیں پتا ہی نہیں لگنے دیتے کہ ملک میں فی الحقیقت کیا ہورہا ہے۔
ہفتے کو عرفان صدیقی کی گرفتاری کی خبر آئی، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھی تو دل غم سے بھر گیا۔ ہم کسی اور موضوع پر لکھنے کا ارادہ کررہے تھے لیکن اس گرفتاری کے بعد سوائے اس کے کچھ بھی لکھنے کو دل آمادہ نہ ہوسکا۔ نصف کالم ہی لکھ پائے تھے کہ طبیعت کی خرابی کی بنا پر ادھورا چھوڑنا پڑا۔ اتوار کو دوبارہ لکھنے بیٹھے آخری سطور تک پہنچے ہی تھے کہ ا طلاع ملی عرفان صدیقی کو رہا کردیا گیا۔ جگر کا وہی مشہور زمانہ مصرع یاد آگیا۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ عمران خانے اس گرفتاری سے کچھ حاصل نہیں کیا سوائے اس کے کہ اپنی حکومت کے منہ پر مزید کالک ملی ہے۔