کیا عمران خان مسئلہ کشمیر حل کراسکیں گے؟

387

 

ایک زمانہ تھا جب مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ’’فوکس پوائنٹ‘‘ تھا۔ پاکستان کے سربراہان مملکت بیرونی دورے پر جاتے تو میزبان ملک کے ساتھ بات چیت میں مسئلہ کشمیر کا ذِکر ضرور کرتے تھے اوردورے کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں بھی اس مسئلے کا ذکر لازمی ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح جو غیر ملکی سربراہ پاکستان کا دورہ کرتے، پاکستان کی حکمران قیادت ان کے ساتھ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی اہمیت دیتی تھی اور غیر ملکی مہمان مجبور ہوتے تھے کہ وہ اس مسئلے پر پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔ یہ سلسلہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک چلتا رہا۔ جنگ کے بعد صدر ایوب روس کی دعوت پر تاشقند میں بھارت کے ساتھ امن کا معاہدہ کرکے آئے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رُخ بدل گیا، اب اس میں مسئلہ کشمیر کو وہ اہمیت حاصل نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ہمیں یاد ہے اُس زمانے میں ریڈیو پاکستان کو بھی مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف پروپیگنڈے سے روک دیا گیا تھا، پھر 1971ء کی جنگ میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا۔ بھارت نے پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں اور سول باشندوں کو قیدی بنالیا جن کی رہائی کے لیے شملہ میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر بھی زیر بحث آیا اور یہ طے پایا کہ دونوں ممالک باہمی بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں گے اور اسے عالمی فورم پر لے کر نہیں جائیں گے۔ یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ ان دونوں جنگوں میں امریکا کا کردار نہایت شرمناک رہا۔ وہ سینٹو اور سیٹو معاہدوں میں پاکستان کا حلیف اور اس کا اسٹرٹیجک پارٹنر تھا۔ پاکستان کا پورا اسلحہ خانہ امریکی ہتھیاروں سے بھرا ہوا تھا اور امریکا معاہدے کے تحت پاکستان کی ضرورت کے وقت فوجی سپلائی کا پابند تھا لیکن جب 1965ء کی جنگ ہوئی تو امریکا نے آنکھیں پھیر لیں۔ پاکستان کو ہتھیاروں کے فاضل پرزہ جات فراہم کرنے سے انکار کردیا اور اس پر یہ کہہ کر پابندیاں لگادیں کہ ہم نے پاکستان کو اسلحہ بھارت سے جنگ کے لیے نہیں دیا تھا۔ یہ پابندیاں جاری رہیں یہاں تک کہ 1971ء کی جنگ سر پہ آگئی اور مشرقی پاکستان میدان جنگ بن گیا۔ پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ اس جنگ میں بھارت جارح ہے اور وہ پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹنا چاہتا ہے۔ چناں چہ امریکا نے پاکستان کو مغالطہ دیا کہ وہ اسے تنہا نہیں چھوڑے گا اور اس کا چھٹا بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے روانہ کردیا گیا ہے۔ یہ بحری بیڑا راستے میں ہی گم ہوگیا اور بھارت نے پاکستان کو سرنڈر کرنے پر مجبور کردیا۔ بعد میں یہ راز کھلا کہ خود امریکا کی مرضی بھی یہی تھی۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ بے وفائی، بے اعتمادی اور منافقت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن ہم اس کا ذِکر چھوڑ کر پھر مسئلہ کشمیر کی طرف آتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان نے شملہ سمجھوتے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک دوطرفہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں گے، لیکن بھارت اس سمجھوتے کو عملی شکل دینے پر آمادہ نہ ہوا، اس کی کوشش یہ رہی کہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت سے گریز کیا جائے، اگر کبھی ایسا موقع آیا بھی تو اس نے آزاد کشمیر پر اپنا حق جتا کر ساری بات چیت کو سبوتاژ کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو وہ بھارت کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنانا ہوگی۔ وہ افغان جہاد کی طرز پر کشمیر کی جدوجہد آزادی کو منظم کرنا چاہتے تھے لیکن حالات نے اس کا موقع نہ دیا اور وہ یہ حسرت لیے اپنے رب کے حضور جا پہنچے۔ تاہم ان کے بعد ان کے طے کردہ منصوبے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کو منظم کیا گیا اور کشمیری مجاہدین نے اپنی بے مثال معرکہ آرائی کے ذریعے بھارت کی قابض فوج کا ناطقہ بند کردیا اور ایک وقت ایسا آیا جب خود بھارت سے یہ آوازیں اُٹھنے لگیں کہ اسے باعزت طریقے سے مقبوضہ کشمیر سے نکل آنا چاہیے ورنہ اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو افغانستان میں سوویت یونین کا ہوچکا ہے، لیکن پھر نائن الیون ہوگیا۔ نیویارک میں ٹوئن ٹاورز کی تباہی نے پورا عالمی منظرنامہ بدل دیا۔ امریکا نے پوری دُنیا میں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے مظلوم مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا اس طرح بھارت کی مراد برآئی اور مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد آزادی پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگ گیا۔ پاکستان میں اُس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، امریکا نے اس پر دبائو ڈال کر جہادی تنظیموں پر پابندی لگوادی۔ جہاد کشمیر فنڈ جمع کرنا خلاف قانون قرار دیا گیا۔ بلاشبہ اس سے کشمیریوں کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بھارت کا حوصلہ بلند ہوا۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جو سول حکومتیں آئیں انہوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کی طے کردہ کشمیر پالیسی برقرار رکھی۔ نواز حکومت تو بھارت کے ساتھ دوستی کی تمام حدیں پار کرگئی۔ اب عمران خان کی حکومت آئی ہے تو اس کی پالیسی بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ عمران خان بھارت سے بار بار مذاکرات کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں لیکن بھارت انہیں منہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں عمران خان کا دورہ امریکا میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا اور صدر ٹرمپ کی جانب سے اس مسئلے پر ثالثی کی پیشکش نے مسئلہ کشمیر کو پھر عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ بھارت اگرچہ اس پر واویلا کررہا ہے، اس نے ثالثی کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور اب اسے شملہ سمجھوتا یاد آگیا ہے جس کے تحت وہ دوطرفہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کا پابند ہے، لیکن بھارت کی یہ قلابازی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کی عالمی اہمیت تسلیم کروانے میں کامیاب رہا ہے۔ امریکا اس وقت افغانستان میں پھنسا ہوا ہے وہ اس سے ہر حال میں گلوخاصی چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ جواب میں پاکستان بھی اس سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کی درخواست کرسکتا ہے۔ ایک ایسا حل جس سے کشمیری عوام مطمئن ہوسکیں۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے ماہرانہ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان پوری دنیا میں اپنی سفارتی سرگرمی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سازگار فضا پیدا کرکے بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کرسکتا ہے۔ بلاشبہ اس کے لیے بڑی محنت درکار ہے۔ عمران خان کی شہرت یہی ہے کہ وہ جس کام کے پیچھے پڑجاتے ہیں اسے کرکے چھوڑتے ہیں کیا وہ یہ کام کرسکیں گے؟۔