اسد عمر کا انکشاف

369

پاکستان تحریک انصاف کے واحد وزیر جو اب سابق وزیر ہوگئے ہیں، انہوں نے ملک کے نظام کی تباہی کا برملا اعتراف کرلیا ہے اور اس کا سبب بھی بیان کردیا ہے ۔اسد عمر عمران خان کی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین کہلاتے تھے لیکن ان کی ٹیم میں موجود ریلو کٹوں نے انہیں باہر کروا دیا۔ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مسائل پیدا ہوئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر معاملات بہتر ہورہے تھے۔ اسد عمر نے وزارت سے باہر ہونے کے بعد دوسری مرتبہ زبان کھولی ہے اور دونوں مرتبہ انہوں نے خرابیوں کے اسباب بیان کیے ہیں۔ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت بدلنے کا موقع سنسرکردیا گیا۔ انہوں نے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی وکالت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ روپے کو مصنوعی طاقت دینے پر اسحق ڈار کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے یہ کام ہر حکمران نے کیا ہے۔ اسد عمر نے متنبہ کیا کہ اگر معاشی فیصلے 2023ء کے انتخابات کو مد نظر رکھ کر کیے گئے تو حالات 2018ء جیسے ہی رہیںگے۔ اسد عمر صاحب کی گفتگو میں معقولیت کیوں نظر آنے لگی ہے اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں کیونکہ جب نواز حکومت میں گیس کے نرخ بڑھے تو انہوں نے شدید مخالفت کی تھی بلکہ مذاق اڑایا تھا لیکن اپنی حکومت میں گیس کے نرخ بڑھنے پر خاموش رہے بلکہ وکالت کی تھی۔ وزارت سے باہر آنے کے بعد ان کی گفتگو میں معقولیت آگئی ہے اس کے نتائج بہرحال انہیں خود بھگتنا ہوںگے اور حکومتی پالیسیوں کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ اسد عمر کی گفتگو سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہیں صرف اس لیے ہٹایاگیا کہ وہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسنے کو تیار نہیں تھے۔ پی ٹی آئی کے پاس اب حفیظ شیخ ہیں جنہیں نواز شریف، زرداری، مشرف، عالمی بینک، آئی ایم ایف، ماہر معاشیات سمجھتے ہیں اور اب پی ٹی آئی بھی معاشیات کا ماہر سمجھتی ہے اس لیے اسد عمر کی بات کو وقعت نہیں ملے گی۔ لیکن وہ جو کچھ کہہ گئے ہیں وہ پی ٹی آئی والوںکے لیے کافی ہے کسی وقت سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ وہ ملک کو کہاں لے جارہے ہیں۔ سلیکٹرز نے سیاسی وزیر خزانہ کو ہٹا کر عالمی مالیاتی اداروں کا آدمی کیوں بٹھایا۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف بھی شاید اسی لیے ہنگامہ ہے کہ وہ بھی سیاسی وزیر خزانہ تھے۔غلطیاں اور اعداد و شمار کی ہیرا پھیری تو سارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمران کرتے ہیں۔ روپے کی قدر کم کرنے یا اسے مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے بارے میں اسد عمر نے کہا کہ اس پر اسحق ڈار کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے یہ کام ہر حکمران کرتا ہے۔ اور ایسا ہی ہے لیکن جو کام سیاسی وزیر خزانہ کرے وہ قابل گرفت ہے اور عالمی اداروں کا آدمی کرے تو واہ واہ ہوجاتی ہے۔ اسد عمر نے سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ کی ہے کہ معاشی فیصلے 2023 کے انتخابات کو مد نظر رکھ کر نہ کیے جائیں۔ جب حکمران ایسا کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے ہر منصوبے کا آغاز فیتہ کاٹنے اور تختی لگانے سے ہوتا ہے اور انجام ناکامی، کیونکہ منصوبہ تو طویل مدت کا ہوتا ہے حکومت تو پانچ سال میں چلی جاتی ہے پھر کون پوچھتا ہے معاشی منصوبوں کے بارے میں تو یہ سوچا جاتا ہے کہ ملک کو کس چیز کی اور کتنی ضرورت ہے اور کتنے عرصے میں اس کی ضرورت ہوگی۔ محض افتتاح کی تختی نصب کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ یہ کام اس قدر خطرناک ہے کہ اس کا نتیجہ صرف تباہی ہے۔ اسد عمر نے ایف بی آر کے نظام کو کینسر زدہ قرار دیا ہے اور تباہی والا کام یہ ہوا کہ ان کے لیڈر نے کینسر زدہ ادارے کی نگرانی ایسے فرد کو دیدی جو چند ماہ قبل تک اپنے کلائنٹس کے ٹیکس بچانے کے لیے اس کینسر زدہ نظام سے کامیاب مذاکرات کرتے رہے تھے۔ ان مذاکرات اور کلائنٹس کے بارے میں بھی اگر اسد عمر بتا دیتے تو پاکستانی قوم کا بھلا ہوجاتا۔ عمران خان اپنے واحد سیاسی معیشت دان کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور سنجیدگی اختیار کریں، ورنہ تباہی مقدر ہوگی۔ وہ تو ایک اور ناکام وزیراعظم کے طور پر پہچانے جائیںگے لیکن ملک کہاں کھڑا ہوگا۔