انقلاب مردہ باد

571

 

 

چناں چہ انہیں ذاتی طور پر یہ معلوم ہے کہ فرانس کے لوگ رات کو گھروں میں چھ چھ تالے لگا کر سوتے ہیں۔ برطانیہ قدامت پسند ملک ہے وہاں کبھی انقلاب نہیں آیا تو کیا برطانیہ کے لوگ گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے ہیں؟ فرانس کی علمی زندگی میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس کے بغیر جدید فرانس وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ یہ اچھی بات ہے یا بُری بات ہے مگر حقیقت یہی ہے۔
ایران کے انقلاب سے قبل ایران خطے میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جاوید چودھری کے نزدیک یہ ’’اعزاز‘‘ کی بات ہوگی مگر صاحب عزت افراد اور قوموں کے لیے اس سے بڑی ذلت کوئی ہو نہیں سکتی۔ بلاشبہ انقلاب ایران نے ایرانیوں کو اس ذلت سے نکالا۔ اقبال کے الفاظ میں ان کے اندر اجتماعی خودی پیدا کی۔ بدقسمتی سے ایران شیعت سے اوپر نہیں اُٹھ سکا ورنہ انقلاب ایران کے اثرات اُمت گیر ہوتے۔ جاوید چودھری کے بقول انقلاب سے پہلے ایران وہ واحد ملک تھا جہاں ہاروڈ یونیورسٹی کا کیمپس تھا۔ ارے بھائی سی آئی اے کے سب سے بڑے علاقائی مرکز میں ہارورڈ یونیورسٹی کا مرکز نہ ہوتا تو اور کہاں ہوتا؟۔ جاوید چودھری کے مطابق 1978ء میں ایک امریکی ڈالر کے 80 ایرانی ریال آتے تھے آج 42 ہزار 105 ریال ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں۔ آخر جاوید چودھری کی فکر اتنی ’’ڈالرانہ‘‘ اور سرمایہ دارانہ کیوں ہے؟۔ وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ انقلاب سے پہلے ایران ایک غلام ملک تھا آج وہ ایک آزاد ملک ہے۔ ایک قوم کی آزادی کو اگر ایک ہزار کھرب ڈالر میں خریدا جاسکتا ہو تو بہت سستا سودا ہے ۔ ایک امریکی وکیل نے پندرہ بیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ لوگ ڈالروں کے عوض اپنی ماں بھی فروخت کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ روس 70 سال اور چین 30 سال بعد کمیونسٹ سے سرمایہ دار ہوگئے مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ روس آج عالمی طاقت ہے تو کمیونسٹ انقلاب کی وجہ سے۔ چین آج عالمی قوت ہے تو مائو کے برپا کیے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی وجہ سے، ورنہ چینی قوم کو استعماری طاقتوں نے افیون کھانے والی قوم بنادیا تھا اور کمیونسٹ انقلاب کے بغیر روس عالمی کیا علاقائی طاقت بھی نہیں بن سکتا تھا۔
جاوید چودھری نے اسلامی بھائی چارے کے تصور کی بھی نفی کی ہے اور محمد بن قاسم کے ظہور ثانی سے بھی انکار کیا ہے۔ اسلام کہتا ہے تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ جاوید چودھری کہتے ہیں ایسی کوئی چیز کہیں موجود ہی نہیں۔ کوئی چیز پہلے انسان کے اپنے دل اور دماغ میں ہوتی ہے۔ چناں چہ انسان جیسا خود ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ باقی لوگ بھی ویسے ہی ہوں گے۔ چوں کہ جاوید چودھری کے دل میں اسلامی بھائی چارہ موجود نہیں بلکہ وہ بھائی کو چارہ بنانے پر یقین رکھتے ہوں گے۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ چوں کہ میرے دل میں اسلامی بھائی چارہ موجود نہیں اس لیے دوسرے مسلمانوں کے دل میں بھی بھائی چارہ موجود نہیں۔ جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستانی قوم ہر سال 300 ارب روپے سے زیادہ کی خیرات کرتی ہے۔ ملک میں زلزلہ آیا تو ساری قوم متاثرین کی مدد کے لیے دوڑ پڑی۔ سندھ میں سیلاب آیا تو ہزاروں افراد نے اپنے سندھی بھائیوں کی مدد کی۔ زلزلے میں صرف جماعت اسلامی نے پانچ ارب روپے نقد اور اشیا کی صورت میں صرف کیے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان زلزلے کے دس سال بعد تک متاثرین کو مکانات بنا کر دیتے رہے۔ ریاستی سطح پر بھی صورتِ حال ایک زمانے تک اچھی رہی۔ 1965ء کی جنگ میں ایران نے اپنے فینٹم طیارے ہمارے حوالے کردیے تھے۔ ایران کے انقلاب کے بعد امریکا نے بہت چاہا کہ پاکستان اسے ایران میں مداخلت کے لیے راستہ دے مگر جنرل ضیا الحق نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پاکستان فضائیہ کے شاہین عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے خلاف بروئے کار آچکے ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں انڈونیشیا نے اپنے کئی بحری جہاز ہمارے حوالے کردیے تھے۔ جب تک پاکستان نے خود بنگلادیش کو تسلیم نہ کیا سعودی عرب کے شاہ فیصل نے بنگلادیش کو تسلیم نہ کیا۔ مگر بدقسمتی سے جس طرح صحافت میں امریکی اور بھارتی ایجنٹوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اسی طرح عالم اسلام کے حکمرانوں میں امریکی ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ورنہ اسلامی بھائی چارہ ابھی تک پوری طرح زندہ ہے۔ جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ترکی 20 لاکھ سے زیادہ شامیوں کو پناہ دیے ہوئے ہے اور ان کی دیکھ بھال پر ’’صرف‘‘ 5 ارب ڈالر سالانہ خرچ کررہا ہے۔ ہم نے بھی بے وسیلہ ہونے کے باوجود 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھایا یہ اور بات کہ ترکی کے برعکس ہم نے اس سلسلے میں بیرونی امداد بھی وصول کی۔
جہاں تک محمد بن قاسم کا تعلق ہے تو اسے بھی تاریخ نے ایک نئے انداز میں ظہور کرتے دیکھا ہے۔ افغانستان پر سوویت یونین نے قبضہ کیا تو سارے عالم اسلام سے ہزاروں لوگ افغان بھائیوں کی جنگ میں شریک اور شہید ہونے کے لیے چلے آئے۔ بلاشبہ ان مسلم حکمرانوں نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا مگر جان تو عام لوگوں نے ہی دائو پر لگائی۔ آج پاکستان کشمیر کے لیے ساری مسلم دنیا سے مسلمانوں کو بلانے کا اعلان کرے لاکھوں محمد بن قاسم اپنی کشمیری بہنوں کے لیے جان دینے چلے آئیں گے۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ وہ کبھی عمران خان کو خمینی یعنی انقلابی سمجھا کرتے تھے۔ آپ اندازہ کریں جس شخص کا تصور انقلاب اور تصور انقلابی رہنما یہ ہو وہ انقلاب کے خلاف بات کررہا ہے۔ جاوید چودھری نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ عمران خان کا ہم پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آکر ہمارے اندر موجود نسیم حجازی کو مار دیا۔ آپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیے گا کہ جاوید چودھری نے یہاں نسیم حجازی کو گالی دی ہے بلکہ انہوں نے اسلامی تاریخ اور اس کے ہیروز کو گالی دی ہے۔ اس لیے کہ نسیم حجازی نے اسلامی تاریخ اور اس کے ہیروز کو پیدا نہیں کیا بلکہ اسلامی تاریخ اور اس کے ہیروز نے نسیم حجازی جیسے بے مثال خواب دیکھنے والے کو پیدا کیا۔
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ وہ عہد جوانی میں دیہاتی بھی تھے۔ کنوئیں کے مینڈک بھی۔ کند ذہن بھی اور احساس کمتری کے مارے ہوئے بھی۔ کوئی جاوید چودھری کو بتائے کہ ان میں یہ ’’خوبیاں‘‘ اس وقت بھی موجود ہیں۔ اس کے بغیر وہ انقلاب مردہ باد کا نعرہ نہیں لگاسکتے تھے۔ ویسے جاوید چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انقلاب ہمیشہ شہری لوگ، ذہین افراد، سمندر کے باسی اور احساس کمتری سے پاک لوگ برپا کرتے ہیں۔