شہداء کو سلام… لیکن کچھ سوچنا پڑے گا

371

پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے یا کم ہونے کے دعوے کی اشاعت کے ساتھ ہی دہشت گردی اور پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ تازہ واقعات وزیرستان اور بلوچستان میں پیش آئے ۔ وزیرستان کے علاقے گرباز میں سرحد پار سے حملہ کیا گیا پاک فوج کی پیٹرولنگ پارٹی کو نشانہ بنایا گیا جن میں حوالدار سمیت6 سپاہی شہید ہوئے۔ بلوچستان کے علاقے تربت میں آپریشن کے دوران کیپٹن سمیت 4 ایف سی اہلکار شہید ہو گئے ۔ ان واقعات پر حکمرانوں کی طرف سے روایتی بیانات جاری ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم نے شہداء کو سلام پیش کیا ہے وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ کچھ قوتیں امن نہیں چاہتیں اسی طرح فوج کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ قربانیاں خطے میں امن کے لیے ہیں ۔ ان حملوں کو دشمن قوتوں کے دم توڑتے عزائم کی علامت بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ان باتوں سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے جوانوں کی شہادتیں مادر وطن کے لیے ہیں ان کے خون کا ایک ایک قطرہ مادر وطن کی حیات ہے۔ ان کی قربانیوں کو سلام ہی پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ملک و قوم کے ذمے داران کو یہ ضرورسوچنا چاہیے کہ کیا یہ قربانیاں مادر وطن کے کسی محاذ پر دی جا رہی ہیں کون سادشمن ہے جس سے ہم لڑ رہے ہیں ملک پر یہ غیر مرئی قوتیں کیوں حملہ آور ہوتی ہیں ۔ کون سی ایسی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ہم ان غیر مرئی قوتوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان گزشتہ دنوں امریکا کے کامیاب دورے سے واپس آئے ہیں ان کے واپس آتے ہی امریکی ترجمان نے ایک معنی خیز بات کہی کہ اب وعدوں پر عمل کا وقت آ گیا ہے ۔ اس کے اگلے روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان صدرکو یقین دلایا کہ امریکا خطے کے حوالے سے حکمت عملی تبدیل نہیں کر رہا ہے ۔ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جوزف ڈنفورڈ اور زلمے خلیل زاد کو امن کا راستہ اپنانے کے لیے کابل روانہ کیا ہے ۔ مائیک پومپیو ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا سابق امریکی صدور ، ان سب نے طاقت کے ذریعے امن کے حصول کا یکطرفہ دعویٰ کر کے دنیا کے ممالک میں بارود کا کھیل جاری رکھا ہوا ہے ۔ جہاں جہاں امریکا سر گرم ہے وہاں اس کے اسلحہ ساز اداروں کی جیب گرم ہے ۔ پاکستان کو بھی افغانستان کا محاذ گرم ہوتے ہی ٹیکنیکل فوجی امداد کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیاامریکی حکام اور پاکستانی وزیر اعظم بتائیں گے کہ کون سے وعدوں پر عمل کا وقت آ گیا ہے اور کیا وعدوں پر عمل کا آغاز پاک فوج پر حملوں سے ہوتا ہے ۔ یہ درست ہے کہ کوئی بلکہ کئی قوتیں افغانستان میںامن نہیں چاہتیں لیکن امریکا ، پاکستان ، افغانستان اور اب چین اور روس بھی افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو ان سے زیادہ طاقتور کون سی قوت ہے جو امن کی کوشش کو سبو تاژ کر دیتی ہے ۔ پاک فوج کے گشتی دستے پر جہاں سے فائرنگ ہوئی ،حملہ آور تیز رفتار گاڑیوں میں بھی تھے تو پہاڑوں میں یہ گاڑیاں زیادہ تیز رفتار سے دوڑانا ممکن نہیں تھا ۔ ہمارا جوابی حملوں کا نظام کہاں گیا جہاں سے فائرنگ کی گئی اس مقام کو تہہ و بالا کیوں نہ کر دیا گیا ۔ قومی اداروں پر حملے کو اتنی آسانی سے کیوں برداشت کر لیا گیا ۔ پاکستانی پارلیمنٹ تو بہت پہلے پاکستانی حدود میں آنے والے ڈرون بھی گرانے کا فیصلہ دے چکی اور یہاں معاملہ پارلیمنٹ کا نہیں ہے جس وقت حملہ ہوا اسی وقت جوابی کارروائی ہونی چاہیے تھی ۔ اگر امریکا خطے میں امن چاہتا ہے تو جس طرح وہ پاکستان سے مطالبات کرتا ہے کہ دہشت گردوں کی سر پرستی بند کی جائے یا دہشت گردوں کی معاونت بند کی جائے اسی طرح پاکستان کو بھی یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ امریکا افغان سرحد کے اس پار سے پاکستانی فوج اور سویلین پر حملہ کرنے والوں کی سر پرستی اور معاونت بند کرے ۔ افغانستان میں امریکا کا کنٹرول ہے یا افغان حکومت کا ۔ اس علاقے سے پاک فوج پر حملے کا واضح مطلب ہے کہ حملہ آوروں کو افغانستان میں حکمرانوں یا طاقتور امریکی فوج کی معاونت حاصل ہے ۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا ۔ وزیر اعظم پاکستان امریکا گئے اور واپس آ گئے وہاں کیا باتیں ہوئیں اور کیا وعدے ہوئے قوم اس سے آگاہ نہیں ۔ ایک اوراہم بات زیر غور آنی چاہیے کہ جب بھی پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن کی بات سنجیدگی سے کی جاتی ہے ایسا کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے ۔ اور اس واقعے کے بعد پاکستانی عوام کی شہری آزادیوں ہی کوسلب کیا جاتا ہے۔ تازہ واقعے کے بعد بھی خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ اس بنیاد پر پاکستانی شہریوں ، دینی مدارس اوردیندار نوجوانوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ یہ کام صرف پاکستان میں نہیں ہوتا ۔9/11 کے بعد امریکا میں ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر عوام کی آزادیاں بڑے پیمانے پر سلب کی گئی تھیں ۔ اصل کام یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان اور افغانستان امن چاہتے ہیں تو امن کے اقدامات کریں جنگ کے نہیں ۔ امریکا نے تو امن کا راستہ اپنانے کے لیے بھی جنرل جوزف کو افغانستان بھیجا ہے ۔ امن کا راستہ جنرل کیسے اپنائے گا ۔ وہ جرنیل تو اب تاریخ کا حصہ بن چکے جو امن کا راستہ پہلے اختیار کرتے تھے اور اگر جنگ سے مفر نہ ہو تو کبھی پیٹھ نہیں دکھاتے تھے ۔ جنرل قمرجاوید باجوہ نے درست مطالبہ کیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا علاقائی امن کے لیے کردار ادا کرے ۔ بس یہ خیال رہنا چاہیے کہ امن طاقت کے استعمال سے قائم نہیں ہوتا ۔