سہ ملکی مسلم اتحاد کی تجویز

634

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے صدر ڈاکٹر مہاتیر محمدنے ترکی ، ملائیشیا اور پاکستان پر مشتمل سہ ملکی اتحاد کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی بدولت مسلم امہ کو تباہ ہونے سے روکنے میں مدد ملے گی ۔ انقرہ میں دونوں عظیم مسلم ممالک کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے یہ تجویز پیش کی جس سے ملائیشیا کے سربراہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اتفاق کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کو غیروں کی غلامی سے نجات دلانا ناگزیر ہوچکا ہے ۔ دونوں سربراہوں نے تین بڑے اسلامی ممالک پر مشتمل اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک دفاع سمیت کئی شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے ٹیلی فون پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی تبادلہ خیال کیاہے اور مسئلہ کشمیر پر ترکی کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے ۔اس سہ ملکی اتحاد پر پاکستان کا کیا موقف ہے ، یہ تو ابھی سامنے نہیں آیا ہے مگر شاید ہی کوئی ہو جو اس تجویز سے اتفاق نہ کرتا ہو ۔ ترکی ، ملائیشیا اور پاکستان تینوں مختلف شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہیں ۔ ترکی کی مہارت سول انجینئرنگ میں زیادہ ہے اور وہ بڑے پروجیکٹوں کی تکمیل کی شہرت رکھتا ہے تو ملائیشیا ہوائی جہاز اور موٹر کار بنانے جیسے شعبوں میں مہارت رکھتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان میزائیل سازی میں بہت آگے ہے ۔ پاکستان کے پاس بحری جہاز بنانے اور ان کی مرمت کا تجربہ موجود ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے جے ایف تھنڈر جہازوں نے بھی دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے ۔ اگر یہ تینوں ممالک صرف دفاع کے شعبہ میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرلیں تو مسلم دنیا کی ضروریات بڑی حد تک پوری کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح یہ تینوں ممالک ہی اگر مشترکہ خارجہ پالیسی تشکیل دے لیں تو دنیا میں مسلم امہ کو ڈھارس ہوگی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہر جگہ سرکاری سرپرستی میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرنے والا نہیں ہے ۔ میانمار ہو یا بھارت ، فلسطین ہو یا سنکیانگ کون سا ایسا خطہ بچا ہے جہاں پر مسلمانوں کو پرامن زندگی گزارنے کی آزادی ہو ۔ مقتدر اور آزاد مسلم ممالک کو بھی علی الاعلان جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کے خلاف کہیں پر کوئی کمزور سی آواز بھی بلند نہیں ہوتی ۔ افغانستان ، عراق، شام ، لیبیا اور یمن کو دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرمیں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ اگر اس سہ ملکی اتحاد پر کسی بھی درجے میں عمل ہوجاتا ہے تو پھر اس امر کی امید بندھتی نظر آتی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اجتماعی آواز بلند ہوگی ۔ ویسے تو اسلامی ممالک کی تنظیم کا قیام بھی اسی روح کے مطابق عمل میں لایا گیا تھا ۔ مگر بدقسمتی سے اس انتہائی اہم فورم کو اس طرح سے استعمال میں نہیں لایا جاسکا جس طرح اس کی ضرورت تھی اور اس وقت یہ ایک عضو معطل کی صورت میں ہے ۔ ایک مشترکہ تجارتی بلاک بنانے کے لیے پاکستان ، ایران اور ترکی پر مشتمل تنظیم آر سی ڈی بھی بنائی گئی تھی تاہم یہ بھی اپنی موت آپ مرگئی ۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک سوویت یونین، یورپی یونین یا متحدہ ریاست ہائے امریکا کی طرز پر کوئی یونین تشکیل دے لیں تاکہ دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی کوئی سعی کی جاسکے ۔ اگر پاکستان ، ترکی اور ملائیشیا مل کرمسلم دنیا کے سامنے ایک کامیاب رول ماڈل پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سوویت یونین ، یورپی یونین یا متحدہ ریاست ہائے امریکا کی طرز پر متحدہ مسلم ریاست کا خواب پورا ہونا ناممکن نہیں رہے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سمت میں پورے اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کی جانے والی اغیار کی سازشوں سے ہشیار رہا جائے ۔دنیا بھرمیں مسلمانوں کے لیے اس وقت صورتحال انتہائی مایوس کن ہے ۔ مودی کو عربوں کے دوست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر یہی مودی عملی طور پر بھارت میں مسلمانوں کے قتل میں پیش پیش ہے ۔ گجرات کا سانحہ ہو یا بابری مسجد کی شہادت ، گئو رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا سڑک پر سرعام قتل ہو یا فسادات کی آڑ میں مسلم املاک کو تباہ کرنا ، مسلم دنیا میں کوئی نہیں ہے جو مودی کا ہاتھ روکنے کی بات کرے ۔ اور تو اور پاکستان بھی سیکوریٹی کونسل میں غیر مستقل رکن کی نشست پر بھارت کی حمایت کررہا ہے ۔ چین جو اپنے آپ کو مسلمانو ں کا دوست کہتا ہے ، اس نے دس لاکھ سے زاید مسلمانوں کو سنکیانگ میں حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی سرکاری طبی مراکز میں جبری طور پر مسلم خواتین کو بانجھ بنایا جارہا ہے مگر ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے جو چین سے اس بارے میں سوال جواب کرسکے ۔ میانمار دیکھنے میں ایک کمزور ریاست ہے مگر اس نے سرکاری سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی شروع کررکھی ہے اورکسی طرف سے کوئی آواز نہیں ۔ اسرائیل کو تو گویا پوری مسلم دنیا نے مل کر آزادی دے دی ہے کہ وہ چاہے جس طرح فلسطینی مسلمانوں کی جان و مال پر حملہ آور ہو ، اس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا ۔ اسی طرح کسی نے آج تک امریکا ، برطانیہ ، جرمنی ، فرانس اور دیگر ممالک سے سوال نہیں کیا کہ افغانستان ، عراق ، شام ، لیبیا اور یمن کو کیوں تباہ کیا گیا ۔ اگر کوئی مسلم اتحاد وجود میں آجائے تو ان سب کی ناک میں نکیل ڈالی جاسکتی ہے ۔