عمرانی حکومت کا ایک اور کارنامہ

584

جمعہ کی شب اسلام آباد پولیس نے پھرتی دکھاتے ہوئے 78 سالہ عرفان صدیقی کو گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا دیں۔ یہ عمرانی حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جس کی ہر طرف سے مذمت کی جارہی ہے اور اس گرفتاری سے تحریک انصاف کو مزید بدنامی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عرفان صدیقی کا جرم یہ ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر رہے ہیں اور ان کی تقاریر بھی لکھتے رہے ہیں۔ لیکن عرفان صدیقی کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ انہوں نے تین نسلوں کو تعلیم دی ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں اور شاید یہی ان کا اصل جرم ہے۔ ان پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس کو اطلاع دیے بغیر اپنا مکان کرایے پر دے دیا اور کرایہ دار کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کیں۔ یہ کوئی معمولی جرم نہیں، اس پر تو عرفان صدیقی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بن جانا چاہیے اور ممکن ہے کہ اس کا بھی جائزہ لیا جارہا ہو۔ لیکن جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق مذکورہ مکان عرفان صدیقی کا نہیں ان کے بیٹے کا ہے جو آج کل ملک سے باہر ہے۔ عرفان صدیقی نے بیٹے کی طرف کرایہ نامہ پر دستخط کیے تھے یہ مکان صرف چھ دن پہلے 20جولائی کو کرایے پر دیا گیا اور ابھی کرایہ دار اس مکان میں منتقل ہی نہیں ہوا تھا۔ پولیس نے اقبال نامی کرایے دار کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ غنیمت ہے کہ محلے والوں کو نہیں پکڑا کہ انہوں نے اتنے بڑے جرم کی اطلاع کیوں نہیں دی۔ عدالت نے بھی مستعدی دکھاتے ہوئے پروفیسر عرفان صدیقی کو 14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا ہے۔ اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے کا عمل کوئی نیا نہیں لیکن اس سے پورے معاشرے کی تذلیل ہوتی ہے۔ عمران خان کی ترجمان بیگم اعوان ہر معاملے پر بولنا اور حکومت کی صفائی پیش کرنا فرض منصبی سمجھتی ہیں چنانچہ اس احمقانہ انداز پر بھی فوراً میدان میں آگئیں اور فرمایا کہ کرایہ داری ایکٹ ہم نے تو نہیں نواز شریف نے بنایا تھا اور یہ کہ کرایے نامہ پر بیٹے کی جگہ اگر عرفان صدیقی نے دستخط کیے ہیں تو یہ جعل سازی ہے، دہرا جرم ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عرفان صدیقی کو نواز شریف کا ساتھ دینے کے جرم میں ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں ورنہ تو کرایہ داری ایکٹ پر عمل نہ کرنے پر لاکھوں مالک مکان پکڑے جائیں۔ معمولی سی بات تھی کہ کوئی پولیس اہلکار جا کرعرفان صدیقی سے کہہ دیتا کہ مذکورہ ایکٹ پر عمل نہیں ہوا چنانچہ جلد از جلد پولیس کو مطلوبہ اطلاعات فراہم کریں۔ لیکن عمرانی حکومت اس وقت عالم غضب میں ہے اور عمران خان کا پارا بلند ہوگیا ہے۔ واشنگٹن سے ورلڈ کپ جیت کر آنے کے بعد تو وہ اور اونچی ہوائوں میں ہیں اور طبل جنگ بج رہا ہے۔ عرفان صدیقی کی اس طرح گرفتاری جھنجھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ عرفان صدیقی کا تعلق میڈیا سے ہے اور بیگم اعوان چار دن پہلے کہہ رہی تھیں کہ عمران خان میڈیا کو اپنا پارٹنر سمجھتے ہیں ۔ خوب پارٹنر شپ ہے؟