کراچی پر رہزنوں کا راج

274

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کرنے والوں اور بھتا پرچی بھیجنے والوں کا جن پھر سے بے قابو ہوگیا ہے ۔ ماضی کی وارداتوں اور تازہ وارداتوں میں بس فرق اتنا ہے کہ پہلے شاہراہوں پر یہ وارداتیں ہوتی تھیں تو اب مجرموں نے گلی کوچوں کا رخ کرلیا ہے ۔ پہلے بھی شہری ان کے رحم و کرم پر تھے اور کھلے عام اسلحہ لہراتے ان ملزمان کے آگے بے دست وپا تھے تو اب بھی یہی صورتحال ہے ۔ کون سا علاقہ ہے جہاں پر راہزنوں کا راج نہیں ہے ۔ کراچی میں مجرموں کے خلاف رینجرز کے آپریشن کے بعد بھتے کی پرچیوں سے نجات ملی تھی تو اب پھر سے یہ سلسلہ کسی ڈر اور خوف کے بغیر شروع ہوگیا ہے ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں پر رینجرز اور پولیس کے علاوہ بھی ہر طرح کی درجنوں ایجنسیاں موجود ہیں ۔ ان سب ایجنسیوں کا اپنا سراغرسانی کا مربوط نظام ہے ۔ ایک لمحے کے لیے پولیس سے صرف نظر کرلیتے ہیں کہ یہ محکمہ صرف اور صرف رشوت خوری کے حوالے سے معروف ہے مگر پولیس کے اختیارات کے ساتھ کراچی میں رینجرز بھی موجود ہے ۔ صرف رینجرز ہی چاہے تو کراچی میں پرندہ پر نہیں مار سکتا ۔ سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ ہے کہ اچانک کبھی رینجرز کا محکمہ انتہائی فعال ہوجاتا ہے اور روز سراغرسانی کی بنیاد پر مجرموںکی گرفتاری کی خبریں جاری کی جاتی ہیں اور پھر یہ خوابیدگی کی حالت میں چلا جاتا ہے ۔ اسٹریٹ کرائم کرنے والے مجرموں کو پولیس کے محکمے کی جانب سے موٹر سائیکل سواروں پر ہیلمٹ کی پابندی کی مہم نے بھی بڑا فائدہ پہنچایا ہے ۔ پہلے ان وارداتوں کی کسی نہ کسی سی سی ٹی وی میں ریکارڈنگ ہوجاتی تھی جس سے ان کی نشاندہی ہوجاتی تھی اور گرفتاری میں بھی آسانی ہوجاتی تھی ۔ اس ریکارڈنگ سے عدالتی کارروائی کے دوران مجرموں کو شک کا فائدہ نہیں ملتا تھا ۔ وارداتوں کی ریکارڈنگ تو اب بھی ہوتی ہے مگر اب یہ موٹر سائیکل سوار مجرم ہیلمٹ پہنے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شناخت نہیں ہوپاتی اور یوں یہ مجرم مامون رہتے ہیں ۔ بہر حال یہ مجرم رہتے تو کراچی ہی میں ہیں اور ان کے قرب و جوار کے لوگ بخوبی ایسے لوگوں کے کرتوتوں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ اگر سراغرسانی کا موثر نظام اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو گرفتارنہ کیا جاسکے ۔ شہریوں کو پرامن ماحول کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جس میں حکومت اب تک ناکامی کا شکار ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی توجہ بھی اس طرف نہیںہے ۔ سندھ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں پرسیلیکٹرز نے کراچی اور حیدرآباد کو متحدہ قومی موومنٹ اور دیہی علاقے پیپلزپارٹی کی سپرداری میں دے رکھے ہیں ۔ یہ دونوں پارٹیاں صرف اور صرف کرپشن میں لاثانی ہیں اور انہیں عوامی خدمت کے کسی کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔یہ دونوں ہی پارٹیاں حکومت میں ہونے کے باوجود حزب اختلاف کی طرح احتجاجی جلسے جلوس بھی کرتی ہیں اور عوام کی توجہ غیر متعلقہ مسائل میں الجھا کر کامیابی سے اپنی نااہلی کو چھپالیتی ہیں ۔ بہر حال یہ سرکار کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کراچی کو ایک مرتبہ پھر سے مجرموں کے ہاتھوں میں یرغمال بننے سے بچانے کے لیے بروقت اقدامات کریں ۔ کراچی میں ڈاکو راج اور بھتہ گردی اگر یونہی بڑھتی رہی تو پھر اس کا نتیجہ شہریوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا ۔ اس سے شہر میں لسانی عصبیت بھی بڑھے گی اور امن و امان کا خراب تاثر ہونے کی بناء پر یہاں پر غیر ملکی بھی آنے سے کترائیں گے ۔ کراچی سی پیک میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال پاکستان کے دشمنوں کے مفاد میں اور پاکستان کے اپنے مفاد کے خلاف ہے۔