دولت خرچ کرنے کا انداز

انسان کو اللہ رب العزت نے تمام ضروریات زندگی دے کر اس کائنات میں بھیجا ہے۔ اس کے حصے میں کچھ تگ و دو رکھی ہے ۔ قرآن میں فرمایا ہے کہ انسان جس کے لیے کوشش کرتا ہے ہم اس کو عطا کرتے ہیں۔ دولت ہے ہی ایسی چیز کہ جتنی ہو کم محسوس ہوتی ہے اور وہ مزید کی کوشش کرتا ہے۔ کائنات کے سب سے سچے انسان کا فرمان عالیشان ہے کہ انسان کو اگر سونے کی ایک وادی مل جائے تو اس کی خواہش ہوگی اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ یعنی موت آنے تک اپنے اثاثے بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے دولت عطا کی ہے تواس کو خرچ کرنے کے بارے میں بھی بتایا ہوگا۔ یہی سوال ایک شخص کے دماغ میں آیا تو اس نے ملازم کو تین ہزار روپے دیے اور کہا کہ اس کو ایسے خرچ کرو کہ ایک حصے کا فائدہ مجھے دنیا میں ہو، دوسرے حصے کا آخرت میں ہو اور تیسرے حصے کو ایسے خرچ کرو کہ مجھے اس کا دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو ملازم کیوں کہ بہت ذہین تھا اس نے کہا کہ آپ کے حکم کی تکمیل ہوگئی اور تین ہزار روپے لے کر گیا اور کچھ ہی دیر میں واپس آگیا۔ مالک کو کہا کہ آپ کا کام ہو گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوا، اس نے کہا کہ مجھے کچھ تفصیل بتاؤ ؟ اس نے کہا کہ جب میں گھر سے نکلا تو ہمارے محلے میں ہی ایک شادی ہو رہی تھی وہاں میں نے ایک ہزار روپے بطور سلامی آپ کی طرف سے دے دیے، وہ بہت خوش ہوئے انہوں نے آپ کو بہت دعائیں دیں۔ پھر وہیں پر کچھ غریب لوگ بھی موجود تھے جو شادیوں میں عام طور پر ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی صاحب ثروت اپنے مال میں سے کچھ صدقہ کر دے تو ایک ہزار روپیہ میں نے ان غریبوں میں تقسیم کیا پھر رہ گیا آخری ایک ہزار روپیہ تو وہ میں نے شادی میں گانے بجانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں تو ایک ہزار میں نے ان پر خرچ کردیا۔ تو اس نے پوچھا کہ ان میں ان کی ترتیب کیا ہے اس نے کہا کہ حضرت جو ہمارے محلے میں شادی ہوئی تھی جہاں میں نے سلامی دی وہ رقم آپ کو دنیا میں ہی واپس مل جائے گی کل اگر آپ کے گھر کے بچے کی شادی ہوگئی تو وہ رقم ہمیں کم از کم اتنی رقم ضرور واپس مل جائے گی یہ تھا آپ کا دنیاوی فائدہ۔ دوسرا جو پیسے میں نے غرباء میں خرچ کئے وہ دنیا میں تو آپ کو شاید مالی طور پر نہیں لیکن آخرت میں یقینی آپ کا بہت فائدہ ہوگا اور رہ گیا تیسرا ہزار روپیہ جو میں نے ناچنے والوں پر خرچ کیا اس کا دنیا اور آخرت میں آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تو یہ وہ تین ہزار روپے کی تقسیم ہے۔

اس واقعہ سے ہم اپنی کمائی ہوئی دولت کو بہتر انداز میں خرچ کر سکتے ہیں کیونکہ دنیا میں رہتے ہوئے انہیں تینوں طریقوں سے آپ کو پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں یہ آپ لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ آپ رقم کو کیسے خرچ کرتے ہیں کیونکہ خرچ کی ہوئی دولت کا بھی آپ کو حساب دینا ہوگا اور مالک کے سامنے تو کوئی بہانہ بھی نہیں چلنا ہمیں یہ چاہیے کہ ہم اپنی اللہ کی طرف سے عطا کی دولت کو بہت بہتر طور پر خرچ کریں دنیاوی معاملات بھی چلائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی آخرت کے لئے بھی کچھ بچا کے رکھ لیں۔ نبی ﷺ نے بکری ذبح کی پھراس کو صدقہ میں دے دیا سوائے اس کے شانے کے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بکری کا ثواب اور اجر اللہ کے پاس ہے جسے ہم آخرت میں پائیں گے کیونکہ آپ ﷺ نے اسے صدقہ کر دیا تھا۔