ماضی کی غلطیوں کا کفّارا

دلکش خواب اور جذباتی نعرے اگر ایک طرف رکھ دیے جائیں اور ذرا سنجیدگی سے سوچا جائے تو ہماری قومی داستان میں باقی رہ کیا جاتا ہے؟ ہم نے یحییٰ کو آزمایا، بھٹو کی طلسماتی ذات کے کرشموں سے معجزات کی توقعات باندھ لیں، ضیاءکے نافذ اسلامی نظام کی روشنی میں پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنایا، شریف کے ایشین ٹائیگر میں ڈھل کر دھاڑنے کی ناکام کوششیں بھی کیں، بی بی ازم آزمایا، مشرف بہ مغرب ہوئے، زرداری کے پاکستان کھپے کی قیمت ادا کی، خان کی کرپٹ اشرفیہ کے خلاف برپا جنگ کو سینے سے لگا کر ہر سیاسی مخالف کو وطن دشمن سمجھا اور صدق دل سے اپنے حصے کی قومی ذمہ داری نبھائی اور اب شہباز اسپیڈ کا لطف لے رہے ہیں۔

اتنے ادوار اور ہر دور کا طاقتور سیاسی دھڑا قتداراعلیٰ کے حصول کے لیے کیا کیا وعدے نہیں کرتا رہا۔ عوام کی تعلیم و تربیت کے لیے کون کون سے عہد نہیں کیے جاتے رہے۔ ہر بار زندہ باد اور مردہ باد کی والہانہ صداؤں کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اچھے دن آگئے اور اب ہم پر ایسے لوگ حکمران ہونے جارہے جو اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ مگر ہر بار یہی سیاسی حریف معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھ پڑتے، نازیبا الفاظ کا تبادلہ ہوتا، سیاست کی آڑ میں حریف کو کیا کچھ نہیں کہا جاتا، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میدان جنگ کا منظر پیش کرتا۔ یہ لوگ جن کا دعوہ قوم کی تعمیر اور ترقی رہا اور جنہوں نے ملک کی اصلاح و رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا تھا، انہوں نے ہم میں سے تقریبا ہر کسی کو جمہوریت کی مضبوطی کے نام پر اپنی پارٹی کے موقف کا شکار بنا دیا۔ حق تو یہ تھا کہ ہم حق خود ارادیت کا استعمال کرتے۔ فاتح اور شکست خوردہ دونوں ملکی مفاد کو اپنی ذات پر فوقیت دیتے ہوئے ایک دوسرے کے جان ومال کے محافظ ہوتے۔ ہر کوئی دوسرے کی عزت کو چار چاند لگاتا۔ مگر دھڑے بازی کی آڑمیں ہم جانی دشمن بن گئے، بھرپور کیچڑ اچھالا،عزت نفس کو پامال کیا، طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ کوئی سیاسی ومذہبی حریف بچ نہ جائے اس لیئے اپنے ہر مخالف کی شکل کو بگاڑا،عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے جھوٹ پر مبنی لطائف گھڑے، دل کی دھڑکنوں کوتیز کرنے کے لیے الزام تراشے، دماغی اذیت کے لیے عجیب و غریب القاب سے نوازا، پٹواری اور یوتھئیے جیسے الفاظ گالی بنا دیئے مگر کسی روکنے والا نے نہیں روکا، کسی پوچھنے والے نے نہیں پوچھا، کسی ٹوکنے والے نے نہیں ٹوکا، سب ایک ہی کشتی کے مسافر معلوم ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے ملک کے موجودہ حالات اور ہر شعبے کو درپیش زوال اس بات کا ثبوت ہیں کہ اہم معاملات پر سوچ بچار کے لیئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں رہا۔ ہم اپنے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں؟ بطور قوم ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہمارے تصور میں ریاست کی تعمیر کے کیا تصورات ہیں اور ان کے حصول کے لیئے کیا ہم نے کبھی حقائق کو مدنظر رکھ کر کبھی کوئی طویل مدتی حکمت عملی کے اصول وضح کرنے میں سنجیدگی دکھائی ہے؟ ہمارے ملک کی اشرفیہ اور خواص کی ترجیحات کی فہرست میں یہ سنجیدہ مسائل کبھی بھی قابل توجہ نہ ٹھہرے اور اب حالات اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ ملک خدادا دآگے کنواں اور پیچھے کھائی کی عملی تفسیر بن چکا ہے مگر آفریں ہے کہ آج بھی ہمارے قومی روّیوں میں سنجیدگی کا شائبہ تک نہیں۔

جو ہوا وہ ہوچکا اور سب کیسے ہوا یہ اتنی بار دوہرایا جاچکا ہے کہ سب کی غلطیاں ہر پہلو سے عیاں ہیں لہٰذا ان سے صرف نظر اگر موجودہ ملکی حالات پر غور کیا جائے تو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ وفاق میں شہباز شریف صاحب اور ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے جس کو عمران خان صاحب تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور جواب میں حکمران اتحادی جماعتیں عمران خان کے مطالبات کو یکسر مسترد کرتی نظر آرہی ہیں۔ ملکی اندرونی اور بیرونی صورتحال اور بدترین معاشی حالات نے حکمرانوں کے لیے حالات کو شدید ناسازگار بنا رکھا ہے۔ سرکار چلانے کے لیے وسائل شدت سے درکار ہیں اور فی الحال آئی ایم ایف ہی واحد آسرا ہے جو ہماری مدد کرنے کو تو تیار ہے مگر اس کی مسلط کردہ شرائط کی بھاری قیمت حکمران اتحاد کو اپنی ساکھ کی قیمت پر پورا کرنی ہونگی مگر وہ اس نقصان کے لیئے پوری طرح سے تیار بھی ہیں کیوںکہ کسی بھی قیمت پر انہوں نے وہ الیکشن نہیں کروانے جن کا نتیجہ عمران خان کی فتح کی صورت میں نکلے۔ ویسے بھی ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں،معیشت یا ملک جائے بھاڑ میں ان کو اپنے مقدمات اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات زیادہ عزیز ہیں اور بناءآئینی ترامیم کیے جس میں سرفہرست نیب قوانین میں تبدیلی، بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال شامل ہیں، وہ حکومت چھوڑنے کو نقصان دہ سمجھتے ہیں،اپنے مفادات کے گرد گھومتے ان چھوٹے اور خودغرض لوگوں سے بڑے فیصلوں کی توقع رکھنا محض حماقت ہی ہوگی۔

دوسری طرف ضد کے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر سینہ تانے کھڑے عمران خان صاحب ہیں جو لگتا ہے کچھ زیادہ جلدی میں ہیں،ایک قومی رہنماءسے زیادہ ان کا کردار ایک سخت ناراض بچے کا سا ہے۔ دوسروں سے رُوٹھ کر بیٹھ جانا تو نجی زندگی میں انسان کو تنہائی کا شکار کردیتا ہے نہ کہ سیاست میں کوئی اس کی افادیت کی توقع رکھے! مخالفت چاہے کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو مگر اس مخالفت کی وجہہ تو پاکستان سے محبت ہی تھی اور اب چاہے آپ کو اچھا لگے یا نہ لگے مگر اسی پاکستان کے دستور میں رائج طریقہ کار پر چلتے ہوئے آپ کے مخالف اسمبلیوں کی زینت بنے ہیں۔ وہ اسمبلیاں جو ملک کے انتظام چلانے کا واحد پلیٹ فارم ہیں۔ اب ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ نفرت کی اس بلندی کو ہاتھ لگانا چاہیں کہ جہاں مخالفین سے ہاتھ ملانا بھی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر دے۔ ایک حقیقی رہنماءاپنے مخالفین سے نفرت کی اس انتہاءکو کیسے جائز قرار دے سکتا جس کا نتیجہ قوم کی تفریق کی صورت میں نکلے۔ یہ کیسا شدت پسند طرز عمل ہے کہ جہاں کسی ادارے کے سربراہ کا فعل، اپنے طے کردہ معیار پر پورا نہ اترنے پر آپ ان کا نمبر بلاک کر دیں۔ یہ آپ نے خود کو کس طرح کے کردار میں ڈھال لیا ہے کہ جہاں آپ کے نزدیک ہر مرض کا علاج احتجاج، جلسے جلوس اوردھرنے بن کر رہ گئے ہیں۔ احتجاج تو سب سے آخری اقدام ہوتا ہے لیکن آپ کی تو ابتداءہی انتہاءسے شروع ہوتی ہے۔

یہ ایک سچ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے ہٹنے سے پڑھے لکھے طبقے میں بے چینی ضرور پیدا ہوئی تھی اور اس بے چینی کے اظہار کے لیے عمران خان کے جلسوں میں ان کی شرکت بھی بھرپور رہی لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ جلسے اور چیز ہیں اور احتجاج اور ملک بند کرنا الگ اقدام ہیں، آپ کے مارچ کے نتیجے میں اگر تو ملک میں افراتفری پھیلتی، ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہو جاتا، سڑکیں سنسان ہوجاتیں، شہری زندگی مفلوج ہوتی یا بازار شٹرڈاؤن کرتے تو حکمرانوں اور مقتدرہ پر پریشر پڑتا لیکن مجموئی طور پر صورتحال قابو میں رہی اور ایسا ہی کچھ ہونے کا امکان تھا بھی۔ تاجر برادری یا ٹرانسپورٹ والے حضرات کسی کھلی بغاوت کے موڈ میں نہیں اور اس مارچ کی شدت کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد حکومت جو اپنی ترجیحات پر جلدی الیکشن کا مطالبہ ماننے سے پہلے ہی انکاری تھی اس کی صفوں میں اب پی ٹی آئی کے مارچ کے نتیجہ اور اس کی طاقت کا اندازہ لگا کراعتماد پیدا ہو چکا ہو گا۔ مشکل تو اب عمران خان کے لیے ہوگی کہ اب مزید کیا کیا جائے۔ جلسے ہوگئے، مارچ بھی ہوگیا اب مزید اور کیا؟ مزید جلسے کیے جاتے ہیں تو وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جذبات کی شدت میں کمی آتی چلی جائے گی۔ بڑے بڑے جلوس روز روز نہیں نکالے جا سکتے۔ اب پی ٹی آئی کو کچھ غور و خوض کرنا پڑے گا۔ دیکھنا پڑے گا کہ اب اس کے پاس کون سے آپشن ہیں۔ ورنہ حال ہی میں پیدا بکھیڑے کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے زور بہت لگایا مگر اہمیت تو نتیجے کی ہوتی ہے اور نتیجہ یہ تھا کہ عمران خان اپنی بات منوا نہ سکے اور مارچ کے بعد صبح اسلام آباد سے بناءکچھ حاصل کیے واپس لوٹ گئے۔ اس امر کو اب آپ جو بھی رنگ دے لیں مگر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے۔ پولیس کی بربریت، آنسو گیس کا بے دریغ استعمال، گرفتاریاں، اب یہ سب ثانوی باتیں ہیں کہ یہ مقابلہ آئین یا قانون کا نہیں بلکہ طاقت کے اظہار کا تھا جس میں نوں سرکار ڈٹی رہی۔

موجودہ حالات میں حکمران اتحاد کو مقتدرہ حلقوں کی غیرجانبداری بھی ملی جو شاید یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک کو درپیش سنگین معاشی حالات میں ملک فوری انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ فوری انتخابات کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ سخت معاشی فیصلے کے قابل نہیں ہونگے اور ان فیصلوں کو کیے بناءاب ملک کے پاس آگے بڑھنے کا فی الحال کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ جو پیٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں یہ ابھی اور بڑھیں گی اور اس کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہونی ہے۔ الیکشن کے اعلان کے بعد ایسے فیصلے کہاں ہو سکتے ہیں۔

لہٰذا موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جہاں موجودہ نظام کے تمام قابل غور حصے دار ساتھ بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ موجودہ سیاسی صورتحال میں پاکستان کو درپیش مسائل کا حل اگر کوئی سمجھتا ہے اکیلے ڈھونڈھ لے گا سو یہ اس کی فاش ناسمجھی ہوگی۔ فوری انتخابات محض عمران خان کا مطالبہ نہیں بلکہ اس کی ضرورت حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو بھی ہے۔ محض چند ماہ پہلے مہنگائی کے خلاف جلوس نکالنے والے اب اگر خود قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے نظر آئے سو یہ عمل ان کے اس تاثر کو مزید داغدار کر دے گا جو پہلے ہی عمران خان کے کرپشن کے خلاف چلائی جدوجہد سے گہرے شکوک کے سائے میں ہے، لہٰذا انتخابات کے عمل تک پہنچنے کے لیئے تمام حصے دار کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اکٹھا ہوں اور ایک واضح بیانئے پر کام کریں جو درپیش مسائل کے حل کے لیئے معاون ہو۔

سیاستدانوں کے رویوں میں پائی جانے والی شدت پسندی اگرچہ مایوسی کو اور گہرا کر رہی مگر پرعزم لوگوں کے لیے وکٹورین ناول نگارجارج ایلیٹ کی بات کہ، آپ جو ہو سکتے تھے وہ بننے میں ابھی بھی دیر نہیں ہوئی بس ابتدا کر دیجیئے، امید کی ایک کرن ہے،ضرورت بس درپیش مسائل کی سنگینی کا احساس کرنے اور دستیاب وسائل کو بروکار لاتے ہوئے بس ابتداءکرنے کی ہے۔