سیالکوٹ میں توہین مذہب کا واقعہ

پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی اسلامی ریاست ہے. پاکستان کے آئین کی رو سے کوئی ایسا قانون اس ملک میں رائج نہیں ہو سکتا جو شریعت محمدی کے خلاف ہو. ناموس رسالت و ختم نبوت دونوں ایسے حساس مسائل ہیں کہ جن کے بارے آئین پاکستان قوانین موجود ہیں. ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے دور حکومت میں ختم نبوت کو قانون کا حصہ بنایا جس کے تحت منکرین ختم نبوت قادیانی، لاہوری اور دیگر گروہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی شخص کو نبی مانتے ہیں وہ کافر ہے۔

یہ گروہ نہ خود کو مسلمان کہہ سکتے ہیں نہ ہی شعائر اسلام مثلاً نماز ،روزہ اور زکوة جیسی اصطلاحات کو اپنی عبادات کے لئے استعمال کر سکتے ہیں. اور ان گروپس کا اپنی عبادگاہ کو مسجد کہنا بھی قانوناً جرم ہے. پاکستان میں منکرین ختم نبوت کو ہر وہ حقوق حاصل ہیں جن حقوق کی پاکستان میں بسنے والی دیگر اقلیتیں حامل ہیں. پھر بھی ریاست پاکستان کی ناک کے نیچے قادیانی خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں اور وہ تمام عبادات و اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو کہ مروجہ طور پر صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں. اسی وجہ سے لوگوں کا ریاست سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔

ناموس رسالت کا مسئلہ امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے. امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اگر رسول اللہ کی شان میں گستاخی ہو اور امت اسکا بدلہ نہ لے سکے تو ساری امت مر جائے. تعزیرات پاکستان کی شق 295C کے تحت جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے، اس کی سزا موت ہے. قانون کی پاسداری اور اس کو لاگو کرنا عوام نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے. مگر ریاست اس معاملے میں کمزور نظر آتی ہے. بالعموم بہت سے گستاخانِ رسول اور بالخصوص آسیہ ملعونہ کو توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے کے باوجود رہا کر دیا گیا. اب یہ افراد بیرون ملک مقیم ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سیالکوٹ پاکستان کا اہم صنعتی شہر ہے جس میں وزیر آباد روڈ پر موجود راجکو فیکٹری میں ایک سری لنکن شہری پریانتا کمارا کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے قتل کیا. پریانتھا کمارا 2010 میں پاکستان آیا اور اسے نومبر 2013 میں راجکو کا جنرل مینجر بنایا گیا. پریانتھا کمارا نے سنہ 2000 میں پروڈکشن انجینرنگ میں گریجویشن کر رکھی تھی. ابتدائی اطلاعات کے مطابق مقتول نے مذہبی پوسٹر کو پھاڑا جس پر مذہبی شخصیات کے نام اور تصاویر موجود تھیں. فیکٹری کے ملازمین نے صبح کے وقت احتجاج شروع کیا جس کے بعد وہ لوگ فیکٹری کے احاطے میں موجود مقتول پرانتھا کمارا کے دفتر گئے اور اسے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا. پرانتھا کمارا تشدد کے باعث ہلاک ہوگیا جسے بعدازاں روڈ پر لا کر آگ لگا دی گئی. روڑ بلاک و احتجاج کی خبر سن کو پنجاب پولیس موقع پر پہنچ گئی. موقع پر موجود لوگ لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعرے لگاتے رہے جس کے باعث لبرل و دین دشمن عناصر تحریک لبیک کو اس واقعے سے جوڑنے کے لئے سر جوڑے ہوئے ہیں. جبکہ اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔

پاکستان کے قانون کے مطابق اگر اس قسم کا واقع پیش آئے تو شہریوں کو اس واقعے کو قریبی پولیس اسٹیشن میں اطلاع دے کر FIR جمع کروانی ہوتی ہے. حال ہی میں جن جن مقامات پر گستاخی کا ارتکاب کیا گیا اس کے خلاف قانون چارہ جوئی کی گئی. حقائق کو دیکھا جائے تو آج تک جتنے بھی گستاخانِ رسول اور توہین مذہب کے مجرمان جیلوں میں قید ہیں کسی ایک کو بھی پھانسی نہیں دی گئی. اگر ان مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو کوئی بھی قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز کوشش نہ کرتا. اسلام امن کے ساتھ ساتھ غیرت کا بھی درس دیتا یے. تاریخ گواہ کے کہ جب مسلمانوں کو غیرت ایمانی موجود تھی تب کسی کی اسلام کے خلاف بیان دینے اور اس طرح کے سنگین کام کرنے کی جرات نہ تھی. اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ

صفحہ دہر سے باطل جو مٹایا کس نے؟     نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟

میرے کعبےکو جبینوں سے بسایا کس نے؟    میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو      ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!

اگر حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں بخوبی پوری کرے تو ماورائے عدالت قتل کو روکا جا سکتا ہے. اس ضمن میں حکومت وقت کو چاہئیے کہ جیلوں میں موجود توہین مذہب کے مجرمان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کروایا جائے تا کہ عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہو سکے، حکومت پاکستان سیالکوٹ راجکو فیکٹری کے واقع کی تحقیقات کرے تا کہ حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔