افغانستان میں امریکا کی شکست

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد نجانے کیوں مجھے مرحوم جنرل حمید گل بے تحاشہ یاد آرہے ہیں ۔آپ ان کے نظریات سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ گزشتہ سو سالوں کے دوران پیدا ہونے والی عظیم عسکری شخصیات میں سے ایک تھے ۔

چند سال قبل جنرل صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں افغانستان کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”تاریخ میں لکھاجائے گا پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں روس کو شکست دی اور پھر تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکا کو شکست دے دی”۔

افغانستا ن سے امریکا کی واپسی ایک کھلی شکست ہے ۔اس جنگ میں قریب 10 کھرب امریکی ڈالر اور 2300 سے زیادہ امریکی جانیں گنوائی جا چکی ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔افغانستان میں امریکی شکست کے بعد جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ بھارت ہے ،جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھا ۔

اشرف غنی حکومت میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت نے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں دہشت گردی کے لیے باقاعدہ کیمپ قائم کیے ہوئے تھے اوردہشت گردوں کی مکمل پشت پناہی کررہا تھا ۔امریکا کی واپسی کے بعد اب اشرف غنی اپنی حکومت ڈگمگارہی ہے اور طالبان افغانستان کے 80فیصد سے زائد علاقے پر قابض ہوچکے ہیں جو بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور اسے اپنے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوتی نظرآرہی ہے ۔

طالبان نے دعوی کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو وہ دو ہفتوں میں پورے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں ۔افغانستان میں قیام امن پاکستان کی پہلی ترجیح رہی ہے ۔پاکستان کی مدد سے جولائی 2015 میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی بار براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے۔ پھر یہ امن عمل بیچ راستے اس وقت رک گیا جب طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کا اعلان کیا۔ اس سے طالبان میں اندرونی طور پر طاقت کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔

کئی موقعوں پر امریکی حکام نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب جب واشنگٹن اور اس کے اتحادی افغانستان سے نکل رہے ہیں تو پاکستان 20 سالہ جنگ کے اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم رہے گا۔دوسری جانب افغانستان کی موجودہ صورت حال پر بھارت کے سفارتی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ۔ایسا لگ لگ رہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھارت راتوں رات میں افغانستان میں یتیم ہوگیا ہے ۔جلال آباد میں واقع اس کا قونصل خانہ جو پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا وہ اب ویران ہوگیا ہے ۔افغانستان کی موجودہ بدلتی صورت حال میں بھارت اس قابل نہیں رہے گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے لیے استعمال کرسکے ۔

کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق بھارت نے بہت کوششیں کی کہ افغانستان میں جنگ جاری رہے۔ افغانستان سے امریکا کے جبری انخلا نے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کرنے کے بھارتی خوابوں کو چکنا چورکردیا۔

معتبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قندھار سے بھاگنے والے زیادہ تر بھارتی حکام کے ساتھ منسلک تھے۔ انہی را کے ایجنٹوں کے ذریعے بھارت گزشتہ کئی سالوں سے افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کررہا تھا۔ اس مقصد کے لیے انٹیلی جنس کی بنیاد پر ایک نیٹ ورک قائم کررکھا تھا۔پاکستان نے متعدد بار بین الاقوامی برادری کو ثبوت پیش کیے کہ بھارت افغانستان میں مشکلات پیدا کرنے اور وہاں خانہ جنگی جاری رکھنے کے لیے کئی مخصوص گروپوں کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

چو نکہ اسے بین الاقوامی مافیا کی حمایت حاصل تھی اس لیے مسئلہ کشمیر کی طرح امریکہ اور اس کے اتحادی اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ لیکن طالبان کو طاقت حاصل کرنے پر بھارت کا یہ انٹیلی جنس نیٹ ورک اب ٹوٹ چکا ہے اور بھارت بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے طالبان دشمن قوتوں کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کررہاہے۔ پر امن افغانستان اس کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مذموم منصوبوں کو پورا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔ جس کا اظہار طالبان پہلے ہی کر چکے ہیں۔

کوئی مانے یہ نہ مانے لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ افغانستان امریکی افواج واپسی اور بھارت کی پسپائی درحقیقت پاکستان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ سے یہ چاہا تھا کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آئیں ۔پاکستان کا اصل ہدف افغانستان میں ناپاک بھارتی سرگرمیاں تھیں ۔یہاں پاکستانی اداروں کو داد دینی چاہیے کہ وہ ملک کے دفاع اور تحفظ کے لیے ہر وقت چوکنا رہتے ہیں ۔جہاں بھارت کو پاکستان کے خلاف ہر وقت سازشوں کے جال بنتا رہتا ہے وہیں ہمارے ادارے ان سازشوں کو ناپاک بنانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔

بھارت کی بوکھلاہٹ سے بخوبی یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اس کو پاکستان نے افغانستان میں کتنی بڑے شکست سے دوچار کیا ہے ۔ایک ایسی جنگ میں جس میں ایک گولی بھی نہیں چلی اور بھارت عبرتناک انجام سے دوچار ہوا ہے۔پاکستان کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے دستبردار ہونے کے بعدبھارت خطے میں اپنا اثرورسوخ کھو دیتا ہے تو اس قابل نہیں رہے گا کہ آسانی سے بلوچستان کے وسیع و عریض علاقے میں دخل اندازی سکے گا۔

آئیں ایک مرتبہ پھر مرحوم جنرل حمیدگل کو یاد کرتے ہیں ۔وہ افغانستان میں روس کی شکست کے اہم کردار تھے ۔خطے اور خصوصاً ً افغانستان کے حالات کے حوالے سے ان کی رائے انتہائی معتبر تھی ۔مجھے ایک مرتبہ پھران کا وہی جملہ یاد آرہا ہے کہ ”تاریخ میں لکھاجائے گا پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں روس کو شکست دی اور پھر تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکا کو شکست دے دی ”میں جنرل صاحب کی روح سے معذرت کرتے ہوئے اس میں بس اتنی ترمیم کرنا چاہتا ہوں کہ جنرل صاحب ”پاکستان نے افغانستان میں امریکا کے ساتھ مل کر بھارت کو بھی شکست دے دی ہے ”۔یہ اگست کا مہینہ ہے ۔ہم جہاں آج آزادی کا جشن منارہے ہیں وہیں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی پسپائی نے 1971کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہے ۔پاک افواج اور اپنے اداروں کے بھروسے پر ہم بھارت کو یہ یقین دلاسکتے ہیں کہ ”1971تمہارا آخری چانس تھا” اب تمام مواقع ہمارے ہیں ۔