مہنگائی کی حقیقت

ہم پاکستانی قوم کا وہ حال ہے کہ ہم کسی چیز پر خوش نہیں رہ سکتے ۔ کوئی اچھا ہے تو اسے اچھا رہنے نہیں دیتے ۔ برا تو ہے ہی برا۔ جب سے میڈیا کا دانہ پانی ختم ہوا ہے وہ اور جرائم پیشہ سیاستدان ، نام نہاد مولوی سب کے سب ایک ہوگئے ہیں۔ ہم جس شہر میں رہتے ہیں وہاں وہ لوگ بھی ہیں جو لگژری زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ایسے بھی ہیں جو ایک وقت کی روٹی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

ہم صرف حکمرانوں کو برا کہناجانتے ہیں لیکن ہم اپنے گریباں میں نہیں جھانکتے۔ میڈیا بجلی کے زیادہ نرخ پر کوئی آواز نہیں اُٹھاتا، پانی کی شہر میں فراہمی پر کوئی مثبت کوشش نہیں کرتا۔حقیقی مسائل پر کوئی پروگرام نہیں اور اگر کرتا بھی ہے تو وہ نورا کشتی ہی ہوتی ہے۔ سیوریج کے نظام پر کوئی شور نہیں کرنا۔ یہ تمام مسائل سرکاری اداروں کی رشوت خوریوں کی وجہ سے عروج پر ہیں۔ اور ان اداروں میں رشوت لینے والے بھی تو ہم ہی ہیں ؟ کیا خیا ل ہے ؟

یہ پوری کائنات ایک توازن کے تحت چل رہی ہے اور ہر شہ میں توازن ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں ایک شہر میں سار ا پاکستان بھرا پڑاہے۔ جو کھیتی باڑی کرتے ہیں وہ بھی کمائی کے مہینوں میں کراچی کا رخ کر لیتے ہیں۔ جو دوسرے شہروں میں کاروبار کرتے ہیں وہ بھی کراچی شہر کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اس شہر میں بلڈر ز دس دس منزلہ قیمتی فلیٹوں کی بھر مار کررہے ہیں ، جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اور عام آدمی کو ڈبل منزلہ بنانے پر پولیس ، اور متعلقہ محکمہ توڑنے پر آجاتے ہیں۔ یہاں وہ عوام بھی ہے جو200روپے کا برگر اور قیمتی آئس کریم کھا کر مزید ٹپ دے کر بھی مہنگائی محسوس نہیں کررہی اور دوسری طرف ایک دس روپے کی روٹی پر بھی ایک ہل چل مچ رہی ہے۔ہمارے معاشرے سے مطابقت نہ رکھنے والی فلم کے ٹکٹ کروڑوں کے بک گئے۔ اور روٹی کی قیمت بڑھنے پر حکمرانوں پر مہنگائی کا رونا پیٹنا بھی مچایا جارہا ہے۔ مہنگائی ہوئی ضرور ہے لیکن میڈیا کو جہاں پر شور مچانا چاہئے وہاں سے مال ملنے کی وجہ سے کوئی پوچھتا نہیں۔انہیں شوشا چاہئے بس پروپیگنڈا کرنے کا۔ اسلام نے جس برائی کو پھیلانے سے منع کیا ہے وہ اس کی تشہیر اتنی کردیتے ہیں کہ جو اس کا شکار ہے اسکا دنیا میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس شہر میں بہت سے لوگ ملٹی نیشنل کمپنیوں ، بینکوں اور ایسے تمام ادارے جو اپنے ملازمین کو باقاعدہ فیکٹری ایکٹ کے تحت یا سرکاری قانون کے مطابق تنخواہیں ادا کررہے ہیں ، ان کو کوئی پریشانی نہیں۔وہ تمام آسائیشوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ کاروباری چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، اسے کوئی مہنگائی سے سروکار نہیں ، کیونکہ وہ کاروبار میں خرید و فروخت کا جو فرق رکھتا ہے، وہ اپنی جگہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ، جس قیمت پر وہ خرید تا ہے وہ بیچتے وقت اپنا منافع رکھ کر بیچتا ہے۔ تو پھر اسے کیا مسئلہ ؟

ہاں پریشان وہ لوگ ہیں جو پرائیوٹ اداروں میں نوکری کر رہے ہیں۔ وہ جو روزانہ کی دہاڑی پر ملازمت کررہے ہیں۔خاص طور پر انڈسٹریز میں جو لوگ کام کررہے ہیں ان کے حقوق مکمل طور پر پامال کئے جارہے ہیں اور کرنے والے ہمارے ہی لوگ جو پرائیویٹ اداروں کے مالکان سے ماہانہ بنیاد پر رشوت لیتے ہیں، جس کی بنا پر ملازم کاحق مارا جاتا ہے۔ اس شہر میں ایسے بھی ادارے ہیں جو اپنے ملازموں کو ٹینکروں کا غلیظ پانی پینے پر مجبور کررہے ہیں۔ اور ان میں ہمارے ہی لوگوں میں سے کوئی مینیجر بن کر سرمایادار کا آلہ کار بنا ہوتا ہے۔ ذرا ان کو بھی لگام دی جانی چاہئے۔ یعنی سرمایا داروں نے حقداروں کا حق مارا ہوا ہے۔ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن سرکاری ادارے کے ملازمین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

آخرت میں تو سب مجرم بنے کھڑےہوں گے ۔ سرمایا دار ٹی وی چینل پر آکر مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں، وہی تو اس کے ذمہ دار ہیں۔ ٹی وی پر شور مچانے والے اینکر اور مالکان اپنے ہی ادارے کے چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں کئی کئی مہینے نہیں دیتے وہ اپنے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ اور جو کچھ دیتے ہیں ، وہ کسی قانون قاعدے کے تحت تنخواہیں دیتے ہیں ؟ نہیں !

مہنگائی صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یعنی ثابت یہ ہوتا ہے کہ غریبو ں کے دشمن سرمایا دار ہی ہیں۔ حکومت اداروں پر پریشر دے تو سیاسی اور جرائم پیشہ افراد ان کی مدد کو آجاتے ہیں۔ کیونکہ ہر ادارے میں سیاسی تنظیم ضرور ہوتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کا بھی بیڑہ غرق کیا جارہا ہے۔

جواب چھوڑ دیں