’’کشمیر ،سیاہ راتوں میں بھٹکتی آہیں‘ ‘

ہم مسئلہ کشمیر کو اس کے مثبت حل کے لئے کئی دفعہ عالمی برادری کے سامنے لے گئے۔لیکن جمہوریت کی چادر پہنے بھارت نے یکمشت سب کوبے وقوف بنا رکھا ہے۔70سالوں سے کشمیری عوام، اقلیتوں پر ظلم وتشدد کی کہانیاں دنیا کے سامنے لاتے رہے،لیکن بھارتی ہٹ دھرمی آج تک اپنی جگہ قائم ہے۔مسئلہ کشمیر تحریکیں نہیں ،متحرک افرادی قوت مانگتا ہے ۔بھارت کے یوم جمہوریہ کے دن کشمیری عوام نے یوم سیاہ منایا، اور مقبوضہ وادی میں سبز ہلالی پرچم لہرایے گئے۔اس لحاظ سے کہ یہ ایک جنت نظیر وادی کانام نہیں ،بل کہ ایشیاء کا دل کہلانے والی جگہ کا نام ہے۔کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے ماؤں ، بہنوں معصوم بچوں کی آہوں سسکیوں نے اپنے دم گھونٹ لئے ہیں۔کان پھاڑ آوازیں،روح فرسا مناظر ،ظلم وستم کی انمٹ لکیریں دیکھ کر بھی عالمی برادری کے لئے ،اور انسانی حقوق کے ٹھیکے داروں کے لئے وادی کشمیر دھکتاہوا انگارہ کیوں بنی ہوئی ہے۔؟
یکم جنوری 1945 ء مسلۂ کشمیر اقوام متحدہ کے کوٹ میں پیش ہوا ۔6 جنوری 1945 ء کو سلامتی کونسل نے اس مسئلے کو جوں کا توں برقرار رکھنے حکم دیا۔24 اکتوبر 1947 ء ایک سازش کے تحت الحاق کشمیر کا ڈرامہ رچاکر 26 اکتوبر 1947 ء کو فی الفور کشمیر میں عبوری حکومت قائم کردی گئی،جو کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پہ پہلی نقب تھی۔پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔سات عشروں سے اقوام متحدہ بھارت کو اپنی قرار دادوں کی یاددہانی کراتا چلا آرہا ہے،مگر بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔5 جنوری 1949 ء کی قرار داد میں واضح لکھا ہوا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا مسئلہ آزادانہ و غیر جانبدارانہ جمہوری طریقہ سے مکمل کیا جائے۔کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔لیکن بھارتی بنیے سات لاکھ فوج کے ساتھ پنجے گاڑھے بیٹھے ہیں۔
معاہدہ تاشقند ، سقوط ڈھاکہ ،اور شملہ معاہدہ کے باوجود پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو قابل احترام نگاہوں سے دیکھا۔ اور آج بھی مسئلہ کشمیر کا حل خطے میں قیام امن کے لئے ناگزیر گردانتا ہے۔حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں دلیرانہ کردار اد اکرکے شورش و بد امنی کا خاتمہ کریں ۔اور اس کے لئے مربوط حکمت عملی مرتب کرکے اپنے کیس کو جامع سطور کی شکل دے کر عالمی برادری کے سامنے بھرپور عزم و حوصلے کے ساتھ لڑیں۔اس کی جغرافیے اہمیت کو دیکھا جائے تو کشمیر دنیا کے ٹاپ 134 ملکوں کا مقابلہ کررہی ہے۔اور اس فہرست میں شامل 133 ممالک سے بڑی ہے۔وسائل کی کمی نہیں ہے۔بس انہیں میسر نہیں تو ایک آزادی ۔بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہروبھی کشمیر کے لئے سنجیدہ کوششیں کرچکے ہیں۔اور اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی خود لے کر گئے تھے،جس پر ریفرنڈم کراکر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کو تسلیم کیا گیاتھا۔ مگر بھارت ہمیشہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا ۔عالمی برادری،اقوام متحدہ بھارتی تسلط ،اور معاہدات کو غیر سنجیدگی سے لینے کوکیوں برداشت کررہے ہیں۔کیا کشمیری عوام ’’یونائٹڈ نیشن ‘‘کے پروگراموں کا حصہ نہیں رہی۔؟ بھارت نے پاکستان کو لیکر کشمیری اقوام کو ہر محاذ پر ذلیل ورسواکرنے کا کوئی بہانہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔26 نومبر 2008 ممبئی حملہ ہوا ،جس کی پاداش میں سابقہ دوطرفہ حکومتوں کی مابین ہونے والے اہم امور وں پر قابل قدر پیش رفت دھری رہ گئیں۔کشمیر سمیت کئی مسلے منطقی حل کی طرف گامزن تھے،اور امید ہوچلی تھی کہ صدر مشرف اور اٹل بہاری واجپائی مل بیٹھ کر کوئی نقشہ ضرور مرتب کرلیں گے ،مگر نادیدہ قوتیں پھر کامیاب ہوئیں ،کشمیریوں کی امیدیں توڑ دی گئیں، اور پاکستان ممبئی حملے کا استاد ٹھیرا۔اور کئی مسئلے جو حل کے قریب تھے دوبارہ زیروپوائنٹ پر آکھڑے ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی جبری قبضہ ،اور بے دریغ حملوں کے تناظر میں جس طرح بھارت انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے ،ایسے میں اقوام متحدہ کشمیر میں اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کرے۔ کیوں کہ طویل عرصے سے بھارت اقوام متحدہ اور’’ یو این او کے فیکٹ فینڈنگ مشن‘‘ کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دے رہا ۔اس خوف سے کہ جمہوریت کی دھجیاں اڑانے والے بھارت کی قلعی نہ کھل جائے۔یو این او اس ایشو پر ہمت کرے اور انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھائے۔کشمیریوں کا قتل عام ،اغوا ،جعلی مقابلوں میں مارنا اور بیلٹ گنوں سے اندھا کرنے کا معاملہ عدالت کے روبرو پیش کرے۔پاکستان کے لئے بھی یہ بات اہم ہے کہ وہ ہزاروں کشمیریوں کے خون ناحق کا حق ادا کرتے ہوئے یواین او فورم کے اشتراک سے دلیرانہ کرادار ادا کرے۔کیوں کہ یہ وقت دلیرانہ کردارکامتقاضی ہے۔ورنہ کشمیر کی جد جہد اور70 سال تک سیاہ راتوں میں بھٹکتی رہے گی۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں