میانمر : کورونا اور سول نا فرمانی کی نئی لہر ، ویکسین مسترد

538

نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر میں فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے جاری احتجاج ایک بار پھر زور پکڑنے لگا ہے۔ ملک بھر میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کی تباہ کاریاں جاری ہیں،جب کہ عوام نے باغی فوج کی مخالفت میں سول نافرمانی کے تحت کورونا ویکسین لگوانے سے انکار کردیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق عوام آمر حکومت کی مخالفت میں ویکسین نہیں لگوا رہے ، کیوں کہ یہ سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ ہے۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ فوج کورونا ویکسین کی آڑ میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جن افراد نے ویکسین لگوا لی ہے ، انہیں سوشل میڈیا پر آمریت کا حامی قرار دیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ میانمر کے طبی شعبے کے افراد نے سب سے پہلے باغی فوج کے خلاف آواز اٹھائی تھی،جس کے باعث یہ شعبہ سب سے زیادہ زیر عتاب ہے۔ باغی فوج نے طبی مراکز اور نجی کلینکوں پر پولیس اور فوج کا پہرا لگا دیا ہے اور وہاں فوج مخالف ڈاکٹروں کا داخلہ منع ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک بھر میں کورونا وائرس سے یومیہ سیکڑوں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں باغی فوج کے سربراہ آنگ ہیلنگ نے ڈاکٹروں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی مہم کا حصہ بن کر کورونا کے خلاف ہنگامی حالات سے نمٹنے میں مدد کریں۔ دوسری جانب میانمر میں انتخابی کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت حاصل کرلیے گئے ہیں۔ فوجی سربراہ نے اپنے بیان میں کہا کہ انتخابات میں ایک کروڑ 10لاکھ سے زائد جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے اور انتخابی نتائج میں دھاندلی سے متعلق تفتیش مکمل ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ میانمر میں گزشتہ سال8 نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نے پارلیمان میں 238 اور سینیٹ میں 138 نشستیں حاصل کی تھیں ، تاہم فوج نے ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔انتخابی کمیشن نے سرکاری ٹی وی پر جاری بیان میں کہا کہ رائے دہندگان کی فہرستوں اور ووٹ کی پرچیوں کی جانچ پڑتال سے دھاندلی کا پردہ چاک ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ ریاستی اختیارات حاصل کرنے کی ایک سازش کی وجہ سے انتخابات آزادانہ تھے نہ منصفانہ اور اس دوران سوچی کی حکمراں جماعت نے شہریوں کو دھوکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔