دھما چوکڑی

465

موبائل کی مقبولیت نے خطوط کو غیر مقبول کر دیا ہے مگر اسلام آباد کے 6 ججوں کے خط نے ایسا تہلکہ مچایا ہے کہ خط کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ خط کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ججوں نے الزا م لگایا ہے کہ بعض ادارے عدالتی امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یاد آیا مذکورہ خط سے قبل تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک خط لہرا کر ایسا دھمال ڈالا تھا کہ اس دھما چوکڑی میں ہر طرف ہاہا کار مچا دی۔ مگراس دھما چوکڑی نے ملک کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ بیرونِ ملک ہمارے سفیروں کو اچھوت بنا دیا اور اب عدالتی امور میں مداخلت کے الزام کی تحقیق کا نتیجہ بھی ڈھاک کے تین بات کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارا نظامِ عدل کچھ ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے کہ جب کسی معاملے کی چھان بین کی جائے تو نتیجہ بھینس کے آگے بین بجانے کے سوا کچھ نہ نکلے۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا خط ہوا میں لہراتا ہی رہا اور اب چھے ججوں کے خط کو لہرایا جا رہا ہے حالانکہ سب ہی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جب بھی کسی معاملے کو دفن کرنا ہو اْسے کسی کمیٹی یا کمیشن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ججوں نے عدالتی امور میں مداخلت کا جو الزام لگایا ہے اس سے چشم پوشی کرنا قوم کی آنکھیں چندھیانے کی سازش ہے کیونکہ عدالتی امور میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں اور یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ عدالتی امور میں سب سے زیادہ مداخلت جج اور جسٹس صاحبان ہی کرتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سب سے زیادہ قانون شکنی عدالتوں ہی میں ہوتی ہے۔

وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹر ہونے سے بچایا تھا اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے مگر اْن کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف صرف ایڑی کا زور لگا رہے ہیں۔ چوٹی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں اگر چوٹی سے کام لیا جائے تو ملکی معیشت کے استحکام میں زرا بھی دیر نہ لگے۔ ارکانِ اسمبلی اور رکن ِ پارلیمنٹ کی تعداد اتنی ہے کہ اگر قوم سے قربانی طلب کرنے کے بجائے ان سے ایثار طلب کیا جائے تو اربوں روپے کا سرمایہ قومی خزانے میں جمع کیا جاسکتا ہے۔ افسرانِ بالا کی مراعات اور سہولتوں نے معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اگر ایوانِ اقتدار میں گھس بیٹھے ایثار و قربانی سے گریز پائی کی روش نہیں چھوڑتے تو قوم کو بھی قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔

یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ اپنے مسائل کے حل کے لیے فْل کورٹ اجلاس تشکیل دے رہی ہیں مگر قومی مسائل کے لیے کچھ سوچنے پر آمادہ نہیں حالانکہ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ قوم کو اندرونی خطرات و مسائل سے نجات دلائے مگر المیہ یہی ہے کہ جو عدلیہ اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہو اْس سے کسی سلجھی ہوئی بات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ جو ادارہ قوائد و ضوابط کے بغیر قائم ہو وہ دائم تو رہ سکتا ہے مگر قومی امنگوں کو قائم نہیں رکھ سکتا یہ کسی حیرت انگیز بات ہے کہ کسی مقدمے کے اندراج اور سماعت کا کوئی اصول ہی نہیں جس کی جیب میں وکیل کو فیس دینے کی رقم موجود ہو وہ بد دیانتی کی ایسی کئی داستانیں رقم کر سکتا ہے اور اس کی اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسند انصاف پر براجمان ہونے کے لیے کوئی معیار ہی نہیں اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ ایم بی بی ایس کرنے والا ڈاکٹر تو بن جاتا ہے مگر اس کی تجویز اسی وقت مسند سمجھی جاتی ہے جب وہ ایم بی بی ایس کے بعد کوئی دوسری ڈگری بھی حاصل کر لے بصورت دیگر وہ صرف نزلہ و زکام کا علاج کرتا رہتا ہے۔

ہمارے عدالتی نظام میں ایسا کوئی میکنزم نہیں بس ایل ایل بی کرو چند سال وکالت کرو اور مسند انصاف پر براجمان ہونے کے لیے کسی کے منظورِ نظر بن جاؤ۔ اگر دیانتداری سے سوچا جائے تو وکیل سے جج بننے والا اچھا جج نہیں بن سکتاکیونکہ وہ وکلا کی قانونی موشگافیاں اچھی طرح جانتا ہے اور تاخیری حربوں سے بھی واقف ہوتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ وکلا اس کی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں اور یہ واقفیت جج کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ میں تاخیر کا سبب بن جاتی ہے۔

عزتِ مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فرمان ہے کہ ثبوت کے بغیر کوئی مقدمہ قابل ِ سماعت نہیں ہوتا اس کے باوجود عدالتوں میں 90 فی صد مقدمات کی سماعت بغیر ثبوت کے ہوتی ہے۔ اس کے بعد اپیل در اپیل کی ابلیسی سماعت حقدا رکو حق سے محروم رکھتی ہے مگرکوئی بھی اس بد نظمی پر غور نہیں کرتا۔