یتیم بچوں کی کفالت ہمارا فرض اور قرض

337

بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔ یتیم ہونا انسان کا نقص نہیں، بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ والدین کا سایہ یقینا ہر بچے کے لیے لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ کوئی بھی بچہ زندگی کے نشیب و فراز میں والدین کے سہارے کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا، کیونکہ18 سال کی عمر تک ہر بچے کو تعلیم، صحت اور خوراک سمیت تمام سماجی اور ذہنی ضروریات پوری کرنے کے لیے والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہی اس کے والدین کا سہارا ہے۔ یونیسیف کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں روزانہ 10 ہزار سے زائد بچوں سے ان کے والدین کا سایہ چھن جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت 17 کروڑ سے زائد یتیم بچے ہیں، جن میں سے اڑھائی کروڑ بچوں کے والد اور والدہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ اعداد وشمار مختلف عالمی اداروں کے تسلیم اور تصدیق شدہ ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان یتیم بچوں میں سے اکثریت غریب افریقی اور ایشائی ممالک میں ہے۔ جنگ، بدامنی اور قدرتی آفات جہاں ممالک اور اقوام کے لیے تباہی کا پیغام لاتی ہیں، وہیں معصوم بچوں کی زندگیاں بھی آزمائش بنا دیتی ہیں۔
گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران جہاں عالمی منظر نامہ تیزی سے بدلاہے، وہیں مختلف ممالک میں جنگوں، قدرتی آفات اور حادثات نے یتیم بچوں کی صورت میں ایک المیے کو بھی جنم دیا۔ کروڑوں یتیم بچے سر پر چھت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی ضرورت کی اشیاء سے محروم ہوگئے ہیں، یقینا یہ اقوام عالم کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہیں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دسمبر 2013 میں ترکی کے فلاحی ادارے آئی ایچ ایچ کی تجویز پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے پہلی بار 15رمضان کو یوم یتامیٰ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اسی تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں یتیم بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کا اجلاس ہوا، جس میں ملک میں موجود یتیم بچوں کے مسائل اور ان کے حل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، بعدازاں یہاں بھی 15رمضان المبارک کو یتیم بچوں کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے فلاحی اداروں نے 20 مئی 2016 کو اپنے اعلامیے میں اس کا اعلان کیا۔ آرفن کئیر فورم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا، یتیم بچوں کے لیے کام کرنے والے ڈیڑھ درجن سے زائد ادارے اس فورم کے رکن ہیں۔ اس فورم میں الخدمت فاؤنڈیشن، ہیلپ ان نیڈ، ہیومن اپیل، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف، قطر چیریٹی، ریڈ فاؤنڈیشن، ہیلپنگ ہینڈفار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ، وامی، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، انجمن فیض الاسلام، تعمیر ملت فاؤنڈیشن، آرفنز ان نیڈ، صراط الجنت ٹرسٹ، جونیئر جناح ٹرسٹ، پینی اپیل، نارتھ امریکن مسلم فاؤنڈیشن اور فاؤنڈیشن آف دی فیتھ فل شامل ہیں، یہی نہیں بلکہ ہر وہ تنظیم یا ادارہ جو ملک میں یتیم بچوں کی کفالت یا فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہا ہے وہ ’’پاکستان آرفن کئیر فورم‘‘ کا حصہ بن سکتا ہے۔
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، اس ماہ مبارکہ میں نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد عبادات کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ بھی کرتی ہے۔ یقینا اس ماہ کے دوران یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے کام کرنے والے اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییں تاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے دیگر بچوں کی طرح اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔
سوال یہ ہے کہ کفالت یتامیٰ کیوں ضروری ہے۔ کفالت یتامیٰ جہاں باعث اجر اور شفاعت رسولؐ کا ذریعہ ہے، وہیں پرامن معاشرے کی تعمیر کے لیے بھی ان بچوں کی درست سمت میں رہنمائی بھی ضروری ہے۔ میری نظر میں یتیم بچہ ایک اَن گائیڈڈ میزائل کی طرح ہوتا ہے، یہ نتائج سے بے پروا ایک ایٹم بم ہوتا ہے، معاشرہ جس طرح اسے ڈیل کرتا ہے، وہ اسی انداز میں معاشرے کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس پر نگران نہ ہونے کے باعث غالب امکان ہے کہ وہ تباہی کے راستے پر چل پڑے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لاکھوں یتیم بچوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا، یہ یتیم بچے جہاں خام سونا ہیں، وہیں انہیں بھرپور توجہ دے کر ان کی کفالت کرکے انہیں کندن بنایا جاسکتا ہے۔
یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اْن کے اموال کی حفاظت اور اْن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اْن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے کے لیے وعید بیان کی گئی ہے۔
پاکستان کے 46 لاکھ کے قریب یتیم بچے، اپنوں کی عدم توجہی اور معاشرے کی بے اعتناعی کے باعث ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں، یہ معصوم پھول بھکاری مافیا، آرگن مافیا اور انسانی اسمگلرز کے ہاتھ چڑھ سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد بھی ایسے ہی بچوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور کسی بھی وقت انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں اتنی بھیانک صورتحال نہیں ہے، یتیم بچوں کے رشتہ دار اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی پرورش کرتے ہیں، غیر سرکاری ادارے ان کی مدد کو حاضر ہوتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کئی مخیر حضرات انفرادی طور پر بھی کفالت یتامیٰ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ اب بھی لاکھوں بچے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، آج بھی مسکراتی کلیاں اپنے بچپن کی مسکراہٹیں بکھیرنا چاہتی ہیں، وہ پھول بن کر کھلنا چاہتی ہیں، وہ پھل بن کر معاشرے میں مٹھاس بانٹنا چاہتی ہیں۔ انہیں ضرورت ہے تو میرے اور آپ جیسے مالیوں کی، جو اپنے مال میں سے ان کلیوں کی آبیاری کریں، انہیں جی جان سے توجہ دے کر معاشرے کا مفید شہری بنائیں۔ وطن عزیز کے دھنک رنگوں میں محبتوں کے رنگ بھریں، جگنو بن کر وطن عزیز کی مانگ ستاروں سے سجا دیں۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم اپنی استطاعت کے مطابق ان بچوں کی کفالت کریں، اگر انفرادی سطح پر ہماری استطاعت نہیں ہے تو ایسے اداروں کے دست و بازو بنیں جو اپنے گلستان پیارے پاکستان میں یتامیٰ کی کفالت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
آئیے! آرفن کئیر فورم کا پیغام ہر محب وطن، صاحب حیثیت پاکستانی تک پہنچائیں۔ ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں جہاں کوئی یتیم بچہ ورکشاپ یا ڈھابے پر نہ ہو بلکہ اس کی منزل اسکول ہو، ان یتیم بچوں کو اپنی آغوش میں اس طرح سمیٹیں کہ کسی جرائم پیشہ گروہ کی نظریں پیارے دیس کے اس قیمتی سرمائے تک نہ پہنچیں۔ یہ 46 لاکھ یتیم بچے سگنل پر کھڑے ہوکر بھیک نہ مانگیں بلکہ اسکول کی اسمبلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ آئیں رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعتوں میں یتیم بچوں کے ساتھ عہد کریں کہ یہاں انہیں بھی جینے کا، پڑھنے کا اور آگے بڑھنے کا پورا حق ہے اور ہم انہیں ان کا یہ حق خود دیں گے۔ ہمارا یہ عہد ہی ہمیں منزل مراد تک پہنچائے گا۔