یہ دھواں کہاں سے اْٹھتا ہے؟

428

پہلی قسط
اخباری اطلاع کے مطابق ایک جسٹس صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ غیر قانونی احکامات پر عمل پیرا رہے گی قوم خوشحالی سے محروم رہے گی۔ جسٹس صاحب کے فرمان سے انکار کی گنجائش تو نہیں مگر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایسے شخص کی بات میں اثر نہیں ہوتا جس پر وہ خود عمل پیرا نہ ہو۔ ملک کی بد حالی اور قوم کی مفلسی پر تبصرہ کرنے سے قبل جسٹس صاحب کو عدلیہ کی بے توقیری اور بے حْرمتی کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جس کی اپنی ساکھ غیر معتبر ہو وہ دوسروں کی ساکھ پر انگشت نمائی کا اہل نہیں ہوتا۔
سیانوں نے درست ہی کہا ہے کہ جس حمام میں سب ہی ننگے ہوں تو وہاں کسی کو ننگا نہیں کہا جاسکتا اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر ادارے اور صاحب ِ اختیار شخص کو اپنا کام کرنا چاہیے دوسروں پر نکتہ چینی کرنے سے ماحول میں بے چینی پھیلتی ہے جو ایک فطری عمل ہے۔
حنظل کا لفظ ہماری نظر سے پہلی بار گزرا تو اس کی مٹھاس نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ ہم نے اس کی معنویت کی تحقیق کا آغا ز کردیا اور جب اس کا مطلب معلوم ہوا تو کرواہٹ سے منہ کڑوا ہوگیا کہ حنظل کو حنظلہ بھی کہتے ہیں اور حنظل کا مطلب بکائن ہے۔ بکائن جسے جنگلی نیم یا چھوٹا نیم کہہ سکتے ہیں۔ بکائن نیم سے بھی زیادہ کڑوا ہوتا ہے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ اگر عدلیہ اپنے فرائض دیانتداری سے آگاہ کرنے کا تہیہ کر لے تو بہت سے جرائم ختم ہوسکتے ہیں۔ یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ کسی جسٹس کو یہ خیال نہیں آیا کہ بغیر ثبوت کے مقدمات کی سماعت کیوں کی جاتی ہے؟ حالانکہ قانونی اور اخلاقی طور پر اس کا کوئی جواز نہیں ستم بالائے ستم یہ کہ جعلی مقدمات کی اپیل بھی منظور کی جاتی ہے جو نسل در نسل چلتی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ نسل در نسل مقدمات کی سماعت کا کیا جواز ہے؟
المیہ یہ بھی ہے کہ کسی نے اس معاملے پر کچھ کرنا تو کْجا سوچا بھی نہیں۔ کہتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی شہادتوں اور ثبوت پر مبنی ہوتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بروقت انصاف کی دستیابی عدالت اور وکیل کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ جو شخص وکیل کی فیس ادا کردے وہ کسی بھی شخص کو عدالتوں میں دھکے کھانے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ جو مقدمات برحق ہوتے ہیں اْنہیں بروقت انصاف فراہم نہیں کیا جاتا اور جعلی مقدمات پیشی در پیشی کے ابلیسی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں کیونکہ جعلی مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا قانونی موشگافیوں سے مقدمے کو ببل کی طرح کھینچتے رہتے ہیں۔ یوں قانونی موشگافی منہ شگافی بن جاتی ہے۔ اور جج صاحبان منہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ وہ بھی وکالت کی سیڑھی پر قدم رکھ کر جج کی مسند پر پہنچتے ہیں اور یہ عمل اْنہیں پہنچا ہوا بنا دیتا ہے اور وہاں انصاف کی پہنچ نہیں ہوتی۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ادارے کا ہر سربراہ جب تک اپنی مسند پر براجمان رہتا ہے اْسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے مگر جونہی وہ اپنی مسند سے اْٹھتا ہے ہر سمت دھواں سا دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ دھواں سا کہاں سے اْٹھ رہا ہے؟ کہ جس نے ہر منظر کو دھندلا دیا ہے۔
اگر ملک میں کوئی ایسا منگنیزم ہوتا جو سبک دوشی کے بعد ادارے کی کارکردگی کو دوشی قرار دے کر اْس کا احتساب کیا جاتا اور استفسار کیا جاتا کہ جب وہ ادارے کے سیاہ اور سفید کا مالک تھا تو اْس نے ان خرابیوں کو کیوں نظر انداز کیا تھا؟ (جاری ہے)