غزوہ بدر کا پیغام اہل غزہ کے نام

396

مکہ مکرمہ میں جب سیدنا محمد رسول اللہؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو سردارانِ قریش نے بڑی شدت کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور رسول اکرمؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذ کھول دیا حالانکہ وہ چالیس سال تک آپؐ کے کردار کو دیکھ چکے تھے اور آپؐ کی امانت دیانت راست بازی کے دل وجان سے قائل تھے۔ سردارانِ قریش نے نہ صرف آپ کی مخالفت کی بلکہ جو لوگ آپؐ پر ایمان لاتے تو قریش مکہ ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے۔ قریش کے ظلم وستم کی کیفیت یہ تھی روزانہ کسی مسلمان کو زخمی کردیتے، کسی کے لباس پر غلاظت ڈال دیتے، آتے جاتے مسلمانوں پر آوازیں کستے جبکہ مسلمانوں کو ان کا جواب دینے کی اجازت نہیں تھی صرف وصرف صبر و تحمل کی تلقین تھی۔ اس طرح صحابہ دوہری اذیت میں مبتلا تھے اس دوران نبوت کے گیارہویں وبارہویں سال مدینہ منورہ سے حج کے لیے آنے والے اوس وخزرج قبائل کے بارہ سعادت مند افراد نے رسول اللہؐ کی تبلیغ سے اسلام قبول کر لیا اور انہوں نے ایک مبلغ اسلام مدینہ منورہ بھیجنے کی درخواست کردی چنانچہ رسول اکرمؐ نے مشہور صحابی سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ روانہ کیا ایک سال کی مدت میں 72 سے زائد لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے مکہ آکر رسول اکرمؐ کے دست مبارک پر بیعت کی اور آپؐ کو مدینہ منورہ تشریف لانے کی دعوت دی رسول اکرمؐ نے صحابہ کرام کو مدینے کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی تاکہ وہ قریش کے ظلم وستم سے محفوظ ہو کرآزادی کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل کر سکیں قریش نے ہجرت کرکے جانے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ بھی ظلم کیا ان کے مال اسباب چھین لیے اور ان کے بیوی بچوں کو زبردستی مکہ میں روک لیا صحابہ بالکل تنہا بھوکے پیاسے کئی دنوں کا سفر کرکے بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے۔

قریش نے مکہ سے 450کلو میٹر چلے جانے کے باوجود دشمنی اور ظلم وستم کا سلسلہ جاری رکھا اب انہوں نے نوجوانوں پر مشتمل چھاپا مار دستے تشکیل دیے جو راتوں کو مدینہ جاکر صحابہ کرام کو اغوا کرکے مکہ لے آتے، جانوروں کو ہنکا کر لے جاتے، چراگاہوں کو آگ لگا دیتے اب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دفاع اور قریش کے ظلم کو روکنے کی اجازت دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایا جن اہل ایمان سے لڑا جارہا تھا ان کو قتال کی اجازت دے دی۔ بیشک اللہ تعالیٰ ان کی نصرت پر قادر ہے جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس لیے کہ وہ کہتے تھے، ہمارا ربّ اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرتا توگرجے عبادت خانے معبد ومساجد گرا دیے جاتے جن کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرے اور اللہ طاقتور غالب ہے۔ (حج: 39:40) اس اجازت کے بعد صحابہ کرام نے ایک طرف اپنے دفاع کی تیاریاں شروع کردیں تو دوسری طرف قریش بزور شمشیر مدینے کو فتح کرنے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا پلان بنا کر ایک ہزار سے زیادہ جنگجووں کو ہر قسم کے اسلحے سے لیس کرکے مدینے کی طرف سفر شروع کردیا ان کی مغرورانہ چال اور متکبرانہ انداز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس طرح بیان کیا۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے نکلے تاکہ لوگوں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک دیں اور اللہ ان کے اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔ (انفال: 47)

قریش کے لشکر کی اطلاع پاکر رسول اکرمؐ نے صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد تین سو تیرہ جانبازوں کا لشکر تیار کیا غربت کی وجہ سے سامان حرب کی بہت کمی تھی مگر آپ بلند ولولوں کے بدر کے مقام کی طرف روانہ ہوئے دونوں لشکر بدر کے مقام پر خیمہ زن ہوئے رسول اکرمؐ صحابہ کرام کی صفوں کو ترتیب دیکر بڑی آہ وزاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح دعا میں مشغول ہوئے کہ آپ نے اپنا سر تپتی ریت پررکھتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! قریش بڑے تکبر اور نخوت کے ساتھ تیرے ساتھ جنگ کرنے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لیے آئے ہیں تیری اس مدد کی ضرورت ہے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے دعا کے بعد آپؐ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے پاس بھیج دیے ہیں اور میدان میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا فلاں قریش کا سردار اس جگہ گرے گا اور فلاں دوسری جگہ قریباً ایک درجن سے زیادہ سرداروں کے مقتول ہونے کی آپؐ نے پیش گوئی فرمائی جب میدان جنگ چھٹا تو 70 کے قریب نامی گرامی قریش کے سردار میدان میں ڈھیر ہو چکے تھے اور جس جگہ رسول اکرمؐ نے ان کے گرنے کی پیش گوئی کی تھی اسی جگہ ان کی لاشیں موجود تھیں۔ آپ نے ان تمام لاشوں کو بدر کے ایک غیر آباد کنویں میں گرانے کا حکم دیا اور اس کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہو کر ایک ایک سردار کا نام لیا اور فرمایا میرے اللہ نے میرے ساتھ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا تم اپنے متعلق بتاؤ؟ صحابہ کرامؓ نے درخواست کی یہ مردہ تو سن نہیں سکتے آپؐ ان کو پکار رہے ہیں تو آپ نے فرمایا میرا اللہ ان کی ذلت اور حسرت و یاس میں اضافے کے لیے ان کو میری باتیں سنا رہا ہے قریش کے 70سردار گرفتار بھی ہوئے عربوں کی لڑائیوں کی تاریخ میں ان کو اتنی عبرتناک شکست کبھی نہیں ہوئی جتنی بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔

1948 سے فلسطین کے مظلوم مسلمان غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف جدوجہد آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اس دوران انہوں نے بے شمار قربانیاں دیں ہیں خاص طور پر 7اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی تحریک نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہے ساڑے پانچ مہینے کی اس جدوجہد میں فلسطینی مسلمانوں کا بے پناہ جانی مالی نقصان ہوا ہے شہداء کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے زخمی لاکھوں میں ہیں ان کی جانیں اسپتالوں میں بھی محفوظ نہیں ان کے گھر اجاڑ دیے گئے ظالم اسرائیل نے ماضی کے ظلم وستم کی تاریخ کو شرما دیا ہے دوسری جانب انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نمائندگی کے دعویدار اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیتے ہیں اور اقوام متحدہ ان کی کنیز ہے اس کی تشکیل کے دن مفکر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے ایک انجمن بنائی ہے اور 56اسلامی ممالک کے سربراہان اس سارے معاملے سے لاتعلق ہیں۔ مسلم حکمران یاد رکھیں اللہ کا حکم غالب ہوکررہے گا جہاد بلند ہوگا یہودیوں کو ذلت ہوکر رہے گی جو ظلم کا ساتھ دے گا وہ بھی رب کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا۔ اس قدر گمبھیر صورتحال کے باوجود فلسطین کے بہادر جوان بڑی پامردی وثابت قدمی کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اسرائیل کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا ہے اورکوئی خوف ان کے قریب نہیں پھٹکتا۔

اس وقت خوراک علاج گھروں کی تعمیر کے لیے ان کی بھر پور مدد کرنے کی ضرورت ہے اور رمضان المبارک کی مقدس گھڑیوں میں ان کے لیے بھر پور دعاؤں کی بھی اشد ضرورت ہے۔

علماء کرام کی خدمت میں اللہ نے آپ کو مقام عظمت عطاکی آپ رسول اللہ کے حقیقی نمائندے ہیں۔ فلسطین کے مسلمان بچے مائیں بہنیں بزرگ نوجوان بہت مشکل میں ہیں۔ آپ علما کرام کی بات اپنی مسجد والوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے توجہ دلاتے رہیں اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں ان شاء اللہ کامیابی حق کی ہے باطل ظالم ناکام ہوگا حق غالب ہوگا۔