ـ23مارچ ایک عہد (آخری حصہ)

387

تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں۔ ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف ایک فن تعمیر کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے پی ایچ ڈی (phd) کی کئی ڈگریاں درکار ہوں گی۔ کیا یہ سب کچھ اس ہندوستان میں ہو سکتا تھا، جس میں جہالت کا دور دورہ ہو اور جس کے حکمرانوں کو علم سے نفرت ہو؟؟

یہ مسلم نظام تعلیم ہی تھا جو سب کے لیے یکساں تھا، جہاں سے بیک وقت عالم، صوفی، معیشت دان، طبیب، فلسفی، حکمران اور انجینئر نکلتے تھے۔ شیخ احمد سرہندی ہوں یا جھانگیر ہو یا استاد احمد لاہوری ہوں، یہ سب مختلف گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک ہی تعلیمی نظام میں پروان چڑھے، اسی لیے ان سب کی سوچ انسانی مفاد کی تھی۔ ول ڈیورانٹ مغربی دنیا کا مشہور ترین مورخ اور فلاسفر ہے۔ وہ اپنی کتاب story of civilization میں مغل ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہر گائوں میں ایک اسکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار اسکول تھے۔ ہر 400 طلبہ پر ایک اسکول ہوتا تھا۔ ان اسکولوں میں 6 مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ گرائمر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور متعلقہ مذہبی تعلیمات‘‘۔ اس نے اپنی ایک اور کتاب A Case For India میں لکھا کہ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25 ہزار ایسے ادارے تھے، جہاں طبی علم پڑھایا جاتا اور طبی سہولتیں میسر تھیں۔ میجر ایم ڈی باسو نے برطانوی راج اور اس سے قبل کے ہندوستان پر بہت سی کتب لکھیں۔ وہ میکس مولر کے حوالے سے لکھتا ہے ’’بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل وہاں 80 ہزار مدرسے تھے‘‘۔ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا جس کا نام الیگزینڈر ہملٹن تھا، اس نے لکھا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں علوم و فنون سیکھانے کے 400 کالج تھے۔ میجر باسو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کے عام آدمی کی تعلیم یعنی فلسفہ، منطق اور سائنس کا علم انگلستان کے رئیسوں حتیٰ کہ بادشاہ اور ملکہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔ جیمز گرانٹ کی رپورٹ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اس نے لکھا ’’تعلیمی اداروں کے نام جائدادیں وقف کرنے کا رواج دنیا بھر میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا۔ 1857ء میں جب انگریز ہندوستان پر مکمل قابض ہوئے تو اس وقت صرف روحیل کھنڈ کے چھوٹے سے ضلع میں، 5000 اساتذہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے‘‘۔ مذکورہ تمام علاقے دہلی یا آگرہ جیسے بڑے شہروں سے دور مضافات میں واقع تھے۔ انگریز اور ہندو مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا عروج عالمگیر کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچا۔ عالمگیر ہی نے پہلی دفعہ تمام مذاہب کے مقدس مذہبی مقامات کے ساتھ جائدادیں وقف کیں۔ سرکار کی جانب سے وہاں کام کرنے والوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ اس دور کے 3 ہندو مورخین سجان رائے کھتری، بھیم سین اور ایشور داس بہت معروف ہیں۔ سجان رائے کھتری نے ’’خلاصہ التواریخ‘‘، بھیم سین نے ’’نسخہ دلکشا‘‘ اور ایشور داس نے ’’فتوحات عالمگیری‘‘ لکھی۔ یہ تینوں ہندو مصنفین متفق تھے کہ عالمگیر نے پہلی دفعہ ہندوستان میں طب کی تعلیم پر ایک مکمل نصاب بنوایا اور طب اکبر، مفرح القلوب، تعریف الامراض، مجربات اکبری اور طب نبوی جیسی کتابیں ترتیب دے کر کالجوں میں لگوائیں تاکہ اعلیٰ سطح پر صحت کی تعلیم دی جا سکے۔ یہ تمام کتب آج کے دور کے MBBS نصاب کے ہم پلہ ہیں۔ اورنگزیب سے کئی سو سال پہلے فیروز شاہ نے دلی میں اسپتال قائم کیا، جسے دارالشفاء کہا جاتا تھا۔ عالمگیر ہی نے کالجوں میں پڑھانے کے لیے نصابی کتب طب فیروز شاہی مرتب کرائی۔ اس کے دور میں صرف دلی میں سو سے زیادہ اسپتال تھے۔

لاہور کے انارکلی مقبرہ میں موجود ہر ضلع کی مردم شماری رپورٹ ملاحظہ فرمالیں۔ آپ کو ہر ضلع میں شرح خواندگی 80فی صد سے زیادہ ملے گی جو اپنے وقت میں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ تھی، لیکن انگریز جب یہ ملک چھوڑ کر گیا تو صرف 10فی صد تھی۔ بنگال 1757ء میں فتح کیا اور اگلے 34 برسوں میں سبھی اسکول و کالج کھنڈر بنا دیے گئے۔ ایڈمنڈ بروک نے یہ بات واضح کہی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلسل دولت لوٹی جس کی وجہ سے ہندوستان بدقسمتی کی گہری کھائی میں جاگرا۔ پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے لارڈ کارنیوالس نے 1781ء میں پہلا دینی مدرسہ کھولا۔ اس سے پہلے دینی اور دنیاوی تعلیم کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ ایک ہی مدرسہ میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، فلسفہ بھی اور سائنس بھی۔ ایک ہزار برس تک مسلمان اس دنیا کی سپر پاور تھے۔ اس کے بعد اپنے خاتمے تک بھی ایک بڑی طاقت رہے۔ اس زمانے کا عدالتی ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ پورے ایک ہزار تین سو برس میں 200 سے بھی کم ہاتھ کاٹے گئے۔ سویڈن کا بادشاہ چارلس سوم چار سال تک مسلمانوں کا قیدی رہا۔ رہائی کے بعد اپنے وطن پہنچتے ہی اس نے جو پہلا حکم جاری کیا وہ محتسب کے ادارے کا قیام تھا۔

اس زمانے میں مسلمانوں کی زبردست فوجی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خلیفہ سلیم سوم کے دور حکومت میں الجزائر کا گورنر امریکا سے سالانہ 642 ہزار ڈالر سونے کی صورت میں اور 12ہزار سونے کے سکے بطور ٹیکس وصول کیا کرتا تھا۔ اس ٹیکس کے جواب میں الجزائر میں امریکی قیدیوں کی رہائی اور امریکی جہازوں کی بحرالکاہل اور بحر قلزوم سے بحفا ظت گزرنے کی گارنٹی دی جاتی تھی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب امریکا اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ کسی دوسری ریاست کی زبان میں لکھے ہوئے معاہدے پر دستخط کرے۔ یہ تاریخ تھی 5ستمبر 1795ء۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا نظام تعلیم کس معیار کا تھا اس کا اندازہ برطانیہ، سویڈن اور ناروے کے بادشاہ جارج دوم کے اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے بادشاہ ہشام سوم کو لکھا تھا۔ اس خط میں اس نے لکھا تھا ’’سلام کے بعد میں عالی جاہ کو یہ بتانا چاہتا ہوںکہ ہم نے آپ کی درس گاہوں اور صنعتوں کی عظیم ترقی اور بہتات کے بارے میں سنا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بیٹے بھی ان چیزوں کو سیکھیں تاکہ یہ اچھی ابتدا ہو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اور اس کے ذریعے علم کی روشنی ہمارے ملک میں بھی پھیل سکے جوکہ چاروں طرف سے جہالت میں گھرا ہوا ہے‘‘۔

یہ تاریخ کی وہ گواہیاں ہیں جنہیں 23مارچ کے موقع پر دہرانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ خلافت کی صورت کیا بے مثال دور تھا جس کا نام لینے سے بھی آج کترایا جاتا ہے اور جب اسلامی شریعت ریاست کا قانون بنتی ہے اور عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے تو کیا بے مثل ترقی دنیا کے سامنے آتی ہے۔ آج مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ ایک ہزار تین سو برس پر پھیلی ہوئی مسلمانوں کی اس عظیم تاریخ اور کارناموں کو فراموش کردیا جائے۔ تعلیمی نصاب سے کھرچ کھرچ کر مسلمان فاتحین اور عظیم مسلمان بادشاہوں کے کارناموں کو حذف کیا جارہا ہے۔ عظیم مسلم ریاست کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ان میں جعلی دشمنیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرنے والوں کو دنیا بھر میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 23مارچ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ایک میثاق تھا۔ اس ملک میں اسلام کو نظام زندگی بنانے کا۔ لیکن اس میثاق کا ایفا کسی کے عمل میں تو درکنار حاشیہ خیال میں بھی موجود نہیں ہے۔